دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں پانچ لاکھ چینی باشندوں کی آبادکاری کے منصوبے پر گوادر سمیت بلوچستان بھر میں شدید تشویش پائی جاتی ہے ، بلوچ آزادی پسند تنظیمیں گوادر پورٹ منصوبے کے شروع ہونے سے ہی وقتاً فوقتاً کہتی آرہی ہیں کہ یہ منصوبہ بلوچوں کی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی پاکستان اور چین کی مشترکہ بھیانک سازش ہے۔ دی بلوچستان پوسٹ کے نامہ نگار شہداد بلوچ کی خصوصی رپورٹ۔
گزشتہ دنوں لندن میں منعقد ہونے والی تقریب میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی نے گوادر میں مکانات تعمیر کرنے کا 500 ملین ڈالرز کے منصوبے کا اعلان کیا ، منصوبے کے پہلے مرحلے میں پانچ لاکھ چینی باشندوں کے لئیے مکانات تعمیر کئیے جائینگے جو ممکنہ طور پر 2021 تک گوادر میں باقاعدہ طور پر آباد ہوجائینگے ۔
چائنہ پاک ہلز (China Pak Hills)کے نام سے یہ رہائشی منصوبہ چائنہ پاک انویسٹمنٹ کارپوریشن (CPIC) اور ٹاپ انٹرنیشنل انجنئیرنگ کارپوریشن (TIEC)کے اشتراک سے بنے گا، اس رہائشی منصوبے چین اور پاکستان کے پیشہ ور لوگوں کی لاکھوں کے حساب میں آبادکاری ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے شہداد بلوچ نے اس بارے میں گوادر کے صحافی رسول بخش سے جب پوچھا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں چینی باشندوں کی آبادکاری کو کیسے دیکھتے ہیں ، جس پر ان کا کہنا تھا “ہمارے شہر کی آبادی 1998 تک محض 85,000 تھی اور گوادر پورٹ بننے کے بعد شہر کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، حالیہ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق گوادر کی آبادی 263,514 ہوگئی ہے.پانچ لاکھ چینی باشندوں کے علاوہ پنجاب اور دیگر علاقوں سے لوگوں کو یہاں آباد کرنے کے بعد بلوچ اقلیت میں بدل جائینگے “۔
ماہیگیری کے شعبے سے منسلک مقامی مچھیرے داد رحیم نے دی بلوچستان پوسٹ کے نامہ نگار سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا “گوادر پورٹ منصوبے کے افتتاح کے وقت حکمرانوں نے ہمارے تعلیم و ترقی کے لئیے بلند و بانگ دعوے کئیے تھے کہ ہمارے بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم دیکر گوادر پورٹ میں ملازمتیں دی جائینگی اور ماہیگیروں کے لئیے “فشر مین ٹاؤن “ بنایا جائیگا، نہ تو ہمارے بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم دی گئی، نہ ملازمتیں ملیں اور نہ ہی ہم ماہیگروں کے لئیے گھر بنائے گئے، ہمیں ہماری سرزمین سے بیدخل کرکے چینی اور دوسرے لوگوں کو آباد کیا جارہا ہے”۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے اشتیاق احمد جو گزشتہ کئی سالوں سے گوادر میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے جُڑے ہوئے ہیں، انکا کہنا تھا کہ پلاٹوں کی قیمتیں بڑھیں یا کم ہوں، خریدار ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے نمائندے نے پوچھا کیا خریدار بلوچ ہیں؟ “ نہیں، خریدنے اور فروخت کرنے والے دونوں بلوچ نہیں ہیں، اکثریت کا تعلق پنجاب، خیبرپختونخوا ءَ اور کراچی سے ہے کچھ غیر ملکی بلخصوص چین سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی ہیں”۔
زیشان شاہ جو کہ ‘ون انویسٹمنٹس’ کے چیف ایگزیکٹو ہیں وہ لندن میں ہونے والی تقریب کے مقرر تھے جہاں انہوں نے چینی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئیے کہا کہ “انہوں نے گزشتہ دو سالوں میں گوادر کا سات دفعہ دورہ کیا ہے جو کہ بلکل پُرامن اور سرمایہ کاری کے لئیے موزوں جگہ ہے۔ گوادر شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر فوج تعینات ہے جو کہ مکمل طور پر محفوظ ہے”۔ زیشان شاہ نے چین کے شہر شنزن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ 1979 میں پسماندہ گاؤں تھا اور اب اسکی آبادی 30 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ چین گوادر میں بلکل وہی کرنے جارہا ہے اور اگلے چھ سالوں میں گوادر کی آبادی میں نصف ملین اضافہ ہوگا”۔
بلوچستان کی آزادی کے لئیے برسر پیکار آزادی پسند تنظیم سے وابستہ شہک بلوچ نے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا “ اس بات میں کوئی شک نہیں گوادر شہر کا مکمل کنٹرول فوج کے ہاتھوں میں ہے، مگر سرمایہ کاری کے حوالے سے محفوظ ہونے کے دعوے منگھڑت ہیں رواں ہفتے گوادر شہر کے مرکزی علاقے میں ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کو بی ایل ایف نے نشانہ بنایا ، جو کہ سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے لوگ تھے”۔