دو ہزار پندرہ میں سندھ کے شہر شکار پور میں ہونے والے خودکش دھماکوں کا دوہزار دس میں خضدار میں بی ایس او آزاد کی ریلی پر ہونے والے فائرنگ سے تعلق تب جڑا جب دو ہزار سولہ میں خودکش حملے کے لیئے تیار عثمان بروہی شکار پور کے ایک شیعہ مسجد میں دھماکے سے قبل پکڑا گیا۔ یہ پہلی دفعہ تھی جب ایک خودکش حملہ آور پکڑا جاتا ہے اور اپنی زبان سے بتلاتا ہے کہ میرا خود کش جیکٹ بلوچستان کے علاقے وڈھ میں ‘معاز’ نامی شخص تیار کرتا ہے۔

وڈھ میں مذہبی شدت پسندوں کی موجودگی ہمیشہ سے نہیں تھی، اور نہ ہی پورے بلوچستان میں فرقہ پرستی کا راج تھا۔ سندھ میں شیعہ مسلمانوں کے مساجد، کوئٹہ میں ہزارہ برادری اور بلوچ آزادی پسندوں کے قتلِ عام سے لیکر کراچی میں ایم کیو ایم لیڈر خواجہ اظہار الحق پرقاتلانہ حملہ ہو، ان سب کی کڑیاں وڈھ کے علاقے باڈڑی میں مقیم شفیق الرحمٰن مینگل سے جاکر ملتی ہیں۔

شفیق مینگل کون ہے؟ کس طرح وہ مذہبی شدت پسندوں سے لیکر ریاست کا آلہ کار بنا، اس بابت دی بلوچستان پوسٹ  اپنے قارئین کے لیئے تحقیقات کے بعد یہ مختصر مگر جامع رپورٹ شائع کر رہی ہے۔

شفیق الرحمٰن، مینگل قبیلے کے محمد زئی طائفے سے تعلق رکھتا ہے، وہ سابق پاکستانی وزیر برائے پیٹرولیم اور سابق نگران وزیراعلی نصیر مینگل کا بیٹا ہے۔ شفیق مینگل نے اپنی بنیادی تعلیم لاہور میں قائم ایک اعلی طبقے کے کالج ‘ایچی سن’ سے حاصل کی ہے، مگر اسکے بعد اسنے اپنی سائنسی تعلیم چھوڑ کر کراچی میں ایک دیوبندی مدرسے میں پڑھائی شروع کردی اور تب اسکا وہ سفر شروع ہوا جس نے اسے نگران وزیراعلی کے بیٹے سے ہزاروں لوگوں کا قاتل بنا دیا اور آج دن تک وہ اپنے ہاتھ معصوم انسانوں کی زندگیوں سے رنگ رہا ہے۔

شفیق مینگل اور انکا خاندان شروعات میں خضدار شہر میں واپڈا گلی میں ایک معمولی سے گھر میں رہتے تھے۔ وہ اپنے شروعاتی دنوں میں بڑے بھائی عطالرحمن مینگل اور ماموں قدوس مینگل کے ساتھ افغانستان سے لائے جانے والی گاڑیوں میں منشیات کا کاروبار کرتا تھا۔

کراچی میں دیوبندی مدرسے میں تعلیم کے دوران اسکی ملاقات لشکرطیبہ کے لوگوں سے بھی ہوا، جہاں سے وہ کچھ وقت کے لیئے کشمیر کے جہادی گروپوں کے ساتھ رہا اورپھر کشمیر میں بھی پاکستانی فوج کی حمایت یافتہ جہادی تنظیموں کے ہمراہ لڑا۔ یہ کشمیر جہاد ہی تھی جہاں سے وہ آئی ایس آئی کے ایک اعلی آفیسر کی نظر میں آیا اور انھوں نے اسے ایک اثاثہ بنا دیا۔

دو ہزار آٹھ میں جب پاکستانی فوج نے بلوچستان بھر میں ‘کِل اینڈ ڈمپ’ پالیسی شروع کی تو فوج نے ساتھ ہی ساتھ ‘لوکل میلیشیا’ بھی تشکیل دینا شروع کردیئے، جن کا مقصد اس وقت تک صرف اغواء کاریوں میں معاونت کرنااور فوجی ٹیموں کو بحفاظت بلوچ علاقوں سے نکالنا تھا، مگر آزادی کی تحریک پروان چڑھنے اور بلوچ مسلح تنیظیموں کے مضبوط ہونے پر پاکستانی فوج نے اپنے ان ملیشیاوں کو بھی مسلح کردیا اور وہاں سے شفیق مینگل کا ‘مسلح دفاع تنظیم’ سامنے آیا۔

اس سرکاری ڈیتھ اسکوڈ نے اپنا پہلا حملہ دوہزار دس میں خضدار ڈگری کالج میں ہورہے بی ایس او ازاد کی ریلی پر فائرنگ کرکے کیا، جس کے نتیجے میں ایک طالب علم ‘علی دوست’ جانبحق اور متعدد طلباء زخمی ہوگئے تھے۔ اسکے بعد اسی تنظیم نے خضدار یونیورسٹی میں کلچرل پروگرام کے دوران دستی بموں سے بھی حملہ کیا تھا جہاں دو نوجوانوں کی ہلاکت اور دیگر کئی طالب علم زخمی ہوگئے تھے۔

ان دونوں حملوں میں لیاقت کرد اور بیبرگ زہری آج دن تک اپنے پیروں سے معزور ہیں۔

شفیق مینگل کو انٹیلجنس ایجنسیوں کی جانب سے پوری حمایت مل جانے کے بعد وہ اور انکا بڑا بھائی عطاالرحمان اپنا پڑاو ایک بار پھر خضدار شہر میں ڈال دیتے ہیں۔ مگر اسی اثناء بلوچستان میں سرگرم آزادی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کے ہاتھوں انکے ماموں قدوس مینگل کی ہلاکت ہوجاتی ہے۔ اپنے ماموں جو کہ پاکستانی فوج کا ایک خاص اثاثہ بھی تھا، کہ قتل پر انھیں آزادی پسند کارکن سے لیکر انکے حمایتیوں کے قتل کا مکمل اجازت نامہ مل جاتا ہے۔

دوہزار نو سے لیکر دوہزار تیرہ تک خضدار شہر میں سینکڑوں لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ اور اغواء کاریاں سب شفیق مینگل کا ڈیتھ اسکواڑ سرانجام دیتا ہے، اسی دیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں کمسن بالاچ اور مجید زہری کی شہادت ہوئی تھی، جبکہ بزرگ حاجی رمضان زہری اور حافظ عبدالقادر مینگل بھی انھی کے گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوئے تھے۔

شفیق مینگل کے والد مینگل قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں مگر ماں کی طرف سے انکا تعلق خضدار کے علاقے توتک کے قصبہ سے ہے، جہاں قلندارنی قبیلے کے لوگ آباد ہیں۔ اس رشتہ داری اور اپنی ملکیت کا بہانہ بناکر شفیق مینگل اپنا نیا ٹھکانہ توتک کو بناتا ہے۔

خیال رہے توتک میں شفیق مینگل کی آمد سے قبل ایک وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن ہوچکا ہوتا ہے جہاں قلندرانی قبیلے کے سردار کے بیٹوں سمیت دسیوں قلندرانی بلوچوں کو اغواء کیا گیا، اغواء ہونے والوں میں سے مقصود قلندرانی کی لاش بعد میں کوئٹہ کے علاقے بروری روڈ سے برآمد ہوئی، مگر دیگر دسیوں افراد اب بھی لاپتہ ہیں، جن میں بیاسی سالہ عبدالرحیم قلندرانی بھی شامل ہے۔

توتک شہر کو اپنا ٹھکانہ بنانے کے بعد شفیق مینگل نے وہاں اپنے ٹارچر سیل قائم کیئے اور بلوچستان بھر سے معصوم لوگوں کو اغواء بعد وہاں پر زندانوں میں بند کرکے رکھا۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان دنوں مال مویشی چرانے والے ہم سے بات کرتےتھے کہ انھیں رات بھر شفیق کے کیمپ سے چیخ و پکارکی آوازیں آتی ہیں، جیسے کسی کو ازیت دیا جارہا ہو۔ شفیق مینگل نے اپنے توتک کیمپ کے احاطے میں ہی گھڑے کھود رکھے تھے اور دوران ازیت اگر کسی کی موت ہوجاتی تو اسے وہی پر دفنایا جاتا تھا۔

ان اجتماعی قبروں کی نشاندہی دوہزار چودہ میں ایک چرواہے نے کیا تھا۔ شفیق مینگل کے کیمپ میں دریافت ہونے والی ان قبروں سے کل ایک سو انھتر لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی حالت اس قدر خراب تھی کے بعض کی صرف باقیات (ہڈیاں) ہی رہ گئی تھی۔ ان لاشوں میں سے صرف دو کی پہچان ہوئی جن کا تعلق بلوچستان کے علاقے آواران سے تھا۔

ان قبروں کی دریافت تب ہی ممکن ہوا جب شفیق مینگل ان علاقوں کو چھوڑ کر واپس اپنے والد کے علاقے وڈھ چلا گیا، اور یہ اسلیئے ہوا کیونکہ زرداری حکومت بدل چکی تھی اور ‘آئی ایس آئی’ کے مقابلے اب ‘ایم آئی’ نے کمان سنھبال لیا تھا۔ مگر شفیق مینگل نے پالیسی شفٹ ہونے کا ادراک بہت پہلے کرلیا تھا اور اب وہ ایک عام شہری کی طرح واپس جانے والا نہیں تھا۔

شفیق مینگل پاکستانی فوج کا ایسا مہلک ہتھیار تھاجو اب صرف اپنے خالق ‘آئی ایس آئی؛ کا سنتا ہے۔ ملٹری انٹیلیجنس نے اسے غیر مسلح کرنے کے لیئے اپنے خآص بندے سید وحید شاہ کو خضدار میں بطور ڈپٹی کمشنر بنا کر بھیجا، مگر اسے بھی اس بات کا اندازہ تب ہوگیا کہ شفیق مینگل کو اب خود فوج بھی لگام نہیں ڈال سکتا جب وڈھ کے قریب ڈیتھ اسکواڈ کے بندوں نے سرکاری لیویز فورس کے آٹھ بندوں کو قتل اور متعدد کو زخمی کردیا۔

شفیق مینگل نے اپنے کھلی آزادی کا فائدہ اٹھا کر لشکرِ جھنگوی جیسے فرقہ وارانہ تنظیم میں اپنی ایک جگہ بنا لی تھی اور اسکے علاوہ افغان طالبان سے بھی گہرے روابط قائم کرلیئے تھے۔ آزادی پسندوں کے قتلِ عام کے بعد اسنے اپنا وہ کام جاری رکھا جہاں سے اسے پہلے دفعہ ‘آئی ایس آئی’ کے لیئے بھرتی کیا گیا تھا۔

شفیق مینگل نے وڈھ کے علاقے باڈڑی میں ٹریننگ کیمپس قائم کیئے۔

ان کیمپوں میں شفیق مینگل ‘آئی ایس آئی’ کےزیرنگرانی نووارد “داعش” اور “لشکر جھنگوی العالمی” نامی تنظیموں کے کارندوں کو ٹریننگ دیتا ہے۔ شفیق مینگل بلوچستان سمیت پورے خطےکے لیئے ناسور بن جائیگا، اس بات کا اندازہ سب ہی کو تھا مگر کوئی بھی حکومت یا وزیر ‘آئی ایس آئی’ کے سامنے کھڑا نہ ہوسکا۔ گو کہ بلوچ مسلح تنظیموں نے شفیق مینگل پر متعدد حملے کیئے، جس میں سب سے نمایاں کوئٹہ شہر میں اسکے گھر پر خود کش حملہ تھا، جس کے نتیجے میں ڈیتھ اسکواڈ کے درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

حال ہی میں کراچی میں پولیس چھاپے کے دوران پکڑے جانے والے مذہبی شدت تنظیم ‘انصارشریعہ’ کے کارندوں نے انکشاف کیا ہے کہ انھیں ٹریننگ بلوچستان کے علاقے وڈھ سے ملی ہے اور وہاں انکا ٹرینر عبداللہ بلوچ تھا۔ خیال رہے اس سے قبل سندھ سے پکڑے جانے والے دہشتگردوں نے بھی شفیق مینگل کے ٹریننگ کیمپس کا بتایا تھا اور ساتھ میں یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ شاہ نورانی کے درگاہ پر خود کش حملے کا پلان بھی وڈھ میں تیار ہوا تھا، اس حملے میں باون کے قریب زائرین کی موت ہوئی تھی۔

شفیق مینگل اب ایک انتہائی مہلک ہتھیار بن چکا ہے اگر اسے مزید نشونماء ملی تو خطے میں  ‘داعش’ کی مضبوطی سمیت خود خطے میں ایک بڑے مذہبی شدت پسند رہنماء کی روپ میں ابھر سکتا ہے۔

4 COMMENTS

  1. پاکستانی فوج نے جس طرح بنگلہ دیش میں اشمس و البدر کو بنگالیوں کی نسل کشی کے لئے تشکیل دی تھی بلکل اسی طرح بلوچستان بھی شفیق مینگل کی سربراہی میں ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دے کر بلوچ قوم کی نسل کشی کی گئی۔
    آج یہی شفیق مینگل داعش جیسے تنظیموں کو بلوچستان میں کمانڈ کررہا ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    شکریہ دی بلوچستان پوسٹ اس رپورٹ کو شائع کرنے کا۔

  2. بات یہ ہے کہ اگر یہ ایک فرد ہوکر اگر ایک فرد اتنا مہلک ہوسکتا ہے تو اسے بنانے والا ادارہ کتنا مہلک ہوسکتا ہے۔

    بندے نہیں، پالیسی اور اداروں کو لگام دیں۔

Comments are closed.