کہاں سے اور کیوں نیم پختہ بلوچ سیاسی سماج میں یعنی بلوچ قیادت سے لیکر کارکنوں تک ہر چیز میں کیڑے نکالنے کی عادت و جراثیم پڑچکے ہیں۔ گوکہ اس غیر سیاسی خصلت کو لوگ سیاسی تنقید اور سیاسی سوال اٹھانے کا مثبت عمل گردانتے ہیں لیکن یہ عمل خود بلوچ سیاست میں تقسیم در تقسیم اور دوریاں پیدا کرنے کا سبب بنتا آیا ہے۔ پوری بلوچ نیم پختہ سیاسی ماحول مذید پراگندگی اور انتشار کی طرف بڑھتا ہوا جارہا ہے۔
سیاست میں سیاسی تنقید اور کسی بھی نقطے پر سوال اٹھانا سیاسی عمل کا لازمی اور شعوری جز ہوتا ہے لیکن اس شعوری جز کیلے بھی ایک پختہ سوچ، سیاسی شعور اور معاملا ت کو پرکھنے کیلئے سیاسی نظر کی ضروت ہوتی ہے۔ سیاسی شعور اور پختہ سوچ صرف نقطہ چینی اور سوال اٹھانے سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ اس کیلے وسیع علم، وسیع تحیق و تجزیہ اور سیاسی ماحول کا حقیقی تجربہ درکا ہوتا ہے۔ اگرعلم و تجربہ غائب ہو پھر تنقید اور سوال اٹھانے سے ہر طرف صرف نفرت، انتشار اور بداعتمادی و دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ تعمیر و ترقی کی تمام راہیں مکمل طور پر مسدود ہوجاتی ہیں۔
آج بلوچ قومی قوت کی دنیا میں بکھرے اور منتشر ہوئے چہرے کو ایک منظم شکل میں متحد کرنے میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ غیر ضروری بلاجواذ تنقید اور اعتراضاتی رجحانات باقی وجوہات میں سے ایک ہے۔ جو تواتر کے ساتھ جاری ہے، جس کے اثرات سے بلوچ قوتوں کے درمیان اعتماد اور یکجہتی کی فضاء کو گند آلود ہونے کی امکانات بہت زیادہ ہیں۔ایسے رجحانات سے آپسی اختلافات اور رنجشیں ختم نہیں ہونگی بلکہ مزید طاقتور بن جائیں گے۔
دانستہ اور شعوری بنیادوں پر اختلافات کو ہوا دینا اور دوریاں پیدا کرنا بلوچ قومی تحریک کیلئے ایک خطرناک المیہ ہے، پھر جس کی سزا بلوچوں کو صدیوں تک بگھتنا پڑسکتا ہے۔ اس عمل سے کچھ انفرادی اور خاندانی زندگیوں کو فائدہ حاصل ہوگا لیکن بحثیت بلوچ قوم فنا کی طرف ہی گامزن ہوگا۔
اگر ہم تحریک کے اندرونی حالات پر ایک سرسری سی نگاہ دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ بنیادی اور اصولی اختلاف نہ ہونے اور خود غیرضروری اختلافات اور الجھنیں پیدا کرنے اور بلوچ قومی قوت کی تقسیم در تقسیم کو بنیادی اور منطقی جواز نا ملنے کی وجہ سے بلوچ قیادت کو تقسیم در تقسیم کی لکیروں کو ختم کرنے اور اتحاد اور یکجہتی کیلئے بلوچ قوم اور خاص کر مخلص نوجوانوں کی طرف سے شدید دباو کا سامنا ہے۔ اسلیئے باقاعدہ دانستہ بنیادوں پر کچھ ادھر سے کچھ ادھر سے نظریاتی و فکری اور انتظامی اختلافات کیلے جواز و منطق پیدا کرنا تاکہ بلوچ قومی تحریک کی تقسیم در تقسیم اور اختلاف در اختلافات کو مذید برقرار رکھنے کیلئے مسائل اور جواز گھڑتے رہنا باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے ہیں۔
یہ سب کون کررہا ہے؟ یہ کہنا قبل اذ وقت ہوگا بہرحال جن مقاصد کے حصول کی خاطر بلوچوں نے اپنی جان و مال اور تمام ذندگی قربان کردیئے اس مقصد کو پانے کیلئے جب تک بلوچوں کی منتشر قوت کو شعوری اور فکری بنیادوں پر متحد نہیں کیا جاتا اس وقت تک بلوچ قومی جہدوجہد کے حقیقی ثمرات سے بلوچ قوم مستفید نہیں ہوگا اور خاص کر بلوچوں کی قومی آواز دنیا کے کونے کونے تک پہچنے میں ناکام ہوگی۔ جو تحریک کیلئے باعثِ نقصان ہے اور پاکستانی پروپگینڈے، قومی تحریک کے خلاف عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی پالیسی مضبوط نظر آئیگی۔
فرض کریں آپسی دوریوں کے درمیان کوئی اختلافات کا زیریلا سانپ موجود ہے تو پھر بھی پہلے سب کو مل بیٹھ کر اس پر غور کرنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا سانپ ہے یا نہیں ہے؟ اگر ہے تو کس قسم کا کس رنگ کا اور کتنا خطرناک ہے یا ایسا نہیں کے کوئ چھپکلی ہے اور کچھ لوگ ہمارے بیچ اس سانپ بناکر پیش کررہے ہیں۔ گو ہر حل اور ہر حقیقت آپسی کوششوں اور خلوصِ نیت میں مضمر ہے۔۔صرف الزام تراشی لطیفہ اور قصہ گوئ سے اب کوئی ذی شعور کسی سے مطمین نہیں ہوگا جب ذی شعور بلوچ مطمئین نہیں ہونگے تو پھر قومی تحریک کی حالت بھی سامنے ہوگی۔
آپسی مل بیٹھنے کیلئے پہلے خوشگوار تعلقات اور ماحول کی ضرورت خاص کر انتشار اور دوریان پیدا کرنے والوں پر باریک بینی سے نظر رکھنا ہوگا کیونکہ یہ خدشہ حقیقت ثابت ہورہا ہے کہ ہمارے صفوں کے بیچ کچھ فرشتے بھی گھس چکے ہیں۔ اب دوست و دشمن کی پہچان ہو یا تمام مسئل کا حل اور بلوچ قومی قوت کو ایک قالب میں ڈھالنا سب باہمی اعتماد، گفت و شنید ، غور و تحقیق اور مل بیٹھنے میں ہی پنہاں ہیں۔