‎تنخواہ دار فوجی سے جہدکار تک کا سفر – ‎ایک قومی اور روحانی بیداری کی کہانی – کمال جلالی

166

‎تنخواہ دار فوجی سے جہدکار تک کا سفر – ‎ایک قومی اور روحانی بیداری کی کہانی

‎تحریر: کمال جلالی

دی بلوچستان پوسٹ

‎شروع میں میرا ایک ہی خواب تھا، وردی پہننا اور فوج کا حصہ بننا۔ یہ خواب صرف نوکری حاصل کرنے کا نہیں تھا، بلکہ اس میں ملک سے محبت، فرض کی ادائیگی، اور وطن کی حفاظت کی خواہش شامل تھی۔

‎میں سمجھتا تھا کہ فوجی بن کر میں اپنی قوم کی بہتر خدمت کر سکوں گا۔ لیکن وقت کے ساتھ مجھے ایک اور حقیقت نے مجھ پر پردہاٹھایا، جس نے میری سوچ اور راستہ دونوں بدل دیے۔ یہی وہ سفر تھا، جو مجھے ایک تنخواہ دار فوجی سے ایک جہدکار، یعنی آزادی کی راہ پر چلنے والے مجاہد، بنا گیا۔

‎وہ دن، جب زمین نے چیخا

‎27 مارچ 1948 کا دن بلوچ قوم کے لیے ایک دکھ بھرا دن ہے، جب ہماری زمین کو زبردستی پاکستان میں شامل کر لیا گیا۔ ہمارے لوگوں کی آزادی کی امیدوں کو طاقت کے زور پر ختم کیا گیا۔ غلامی کی زنجیروں کو محسوس کرتے ہوئے میں نے جانا کہ صرف ایک وردی پہنے فوجی بننا کافی نہیں، بلکہ اپنے وطن، اپنی قومی پہچان، اور اپنی غیرت کی حفاظت کے لیے قربانیوں بھرا ایک نیا راستہ اپنانا پڑے گا۔

‎یہ راستہ ہے گوریلا جنگ کا، جہاں اصل لڑائی صرف ہتھیاروں کی نہیں، بلکہ نظریات اور مقصد کی ہوتی ہے۔

‎فوجی کی زندگی، آسانیاں اور حکم کی اطاعت
‎ایک باقاعدہ فوجی کی زندگی میں نظم و ضبط، اچھی خوراک، آرام دہ رہائش، جدید اسلحہ، اور تنخواہ شامل ہوتی ہے۔ اسے جو بھی حکم ملے، وہ ادارے کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کی ذمہ داری وہی ہوتی ہے جو اسے اوپر سے دی جاتی ہے۔

‎جہدکار کی زندگی، قربانی، جدوجہد، اور بیداری

‎جہدکار کا راستہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس میں نہ کوئی تنخواہ ہے، نہ آرام، نہ سہولت۔
‎یہ زندگی محنت، صبر، اور مسلسل خطرات سے بھری ہوتی ہے۔
‎ہر دن مشقت سے شروع ہوتا ہے اور ہر رات نگرانی میں گزرتی ہے۔
‎جہدکار کے لیے ایک کپ چائے بھی کسی کامیابی جیسی لگتی ہے، اور پرانے کپڑوں کی مرمت بھی ایک فرض بن جاتی ہے۔
‎یہاں دشمن صرف وردی والا نہیں ہوتا، بلکہ وہ نظام ہوتا ہے جو قوم کو غلام بنائے رکھتا ہے۔
‎جہدکار کی اصل ذمہ داری نہ صرف اس نظام سے لڑنا ہے، بلکہ اپنی قوم، اپنی شناخت، اور اپنے خوابوں کو بچانا بھی ہے۔

‎یہ صرف لڑائی نہیں، بیداری کا سفر ہے
‎یہ جنگ صرف زمین کی نہیں، روح کی بھی ہے۔ یہ انسان کو اس کی اندرونی طاقت کا احساس دلاتی ہے۔
‎یہ سکھاتی ہے کہ قومیں زندہ تب ہوتی ہیں جب وہ خون دیتی ہیں، خواب نہیں بیچتیں۔ جہدکار بھوک، پیاس، سردی، گرمی، تنہائی اور خطرات کے باوجود پیچھے نہیں ہٹتا۔ اس کی آنکھوں میں آزادی کی جو روشنی ہوتی ہے، وہ بڑے سے بڑا طوفان روک سکتی ہے۔
‎نتیجہ، ایک مشعلِ راہ
‎فوجی سے جہدکار بننے کا یہ سفر میرے لیے صرف ایک پیشہ تبدیل کرنا نہیں تھا، بلکہ ایک فکری بیداری تھی۔
‎یہ ایک ایسی روشنی ہے جو آنے والی نسلوں کو بھی راہ دکھا سکتی ہے، اگر وہ اس کی قیمت سمجھیں۔
‎یہ پیغام ہر اس شخص کے لیے ہے جو اپنی زمین سے عشق کرتا ہے، جو غلامی قبول نہیں کرتا، اور جو جانتا ہے کہ آزادی صرف نعرے لگانے سے نہیں، بلکہ قربانی دینے سے حاصل ہوتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔