وائرل ویڈیو: علاقے اور ملزمان کی شناخت ہوگئی, مزید انکشافات

1409

بلوچستان میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر ایک لڑکی اور لڑکے کو سرعام قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ کوئٹہ سے متصل مستونگ کے علاقے ڈغاری کے مقام پر عیدالاضحیٰ سے چند روز قبل پیش آیا، جس کی ویڈیو بعد ازاں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور شدید غم و غصے کا باعث بنی ہوئی ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کو عوامی ہجوم کے درمیان گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ یہ ویڈیو بظاہر کسی موبائل فون کیمرے سے بنائی گئی تھی، جس میں موقع پر موجود افراد کی بےحسی اور قاتلوں کے طرز عمل نے سماجی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ کی تحقیق کے مطابق قتل کیے گئے نوجوان کی شناخت احسان سمالانی کے نام سے ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ احسان واقعہ کے چند روز قبل موٹر سائیکل پر سوار تھا جب قاتلوں نے اس کا تعاقب شروع کیا۔ وہ قریبی ایک گھر میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گیا، تاہم مقامی افراد نے اسے بعد ازاں ملزمان کے حوالے کر دیا۔

ذرائع کے مطابق اس واقعے کے مرکزی کردار لڑکی کا بھائی جلال ولد بار جان ساتکزئی، نصیر ساتکزئی اور جاڑو ساتکزئی نامی افراد ہیں۔

علاقائی ذرائع کا کہنا ہے ملزم جلال خان کے روابط فورسز حکام سے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ ایف سی کرنل نے ہی جلال خان کو اسلحہ فراہم کیا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مقتولہ، جسے اندازہ تھا کہ اسے قتل کیا جائے گا، قرآن پاک اُٹھا کر قاتلوں کے سامنے پیش ہوئی۔ اس نے واضح طور پر کہا “صرف گولی مارنے کا حق ہے، بس سات قدم ساتھ چلو، پھر مار دینا۔” پھر قاتلوں نے اسے گولی مار دی۔

بعد ازاں احسان سمالانی جو پہلے ان کے تحویل میں تھا کو گولی ماری گئی۔ جب پہلی گولی سے وہ جانبحق نہ ہوا تو قاتل نےدوسری گولی اس کی آنکھ میں ماری گئی۔

حکومتی ردعمل اور تنقید

بلوچستان حکومت نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ تاہم سماجی حلقے اور انسانی حقوق کے کارکنان حکومتی اقدامات پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسے ہی کئی واقعات کی تحقیقات یا تو مکمل نہیں ہوئیں، یا پھر قبائلی دباؤ کے باعث مجرم قانون کی گرفت سے بچ نکلے۔

غیرت کے نام پر قتل ایک سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ قانون میں اس کے خلاف سخت سزائیں موجود ہیں، لیکن زمینی حقائق اکثر اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔

پاکستانی قانون میں غیرت کے نام پر قتل کو سخت جرم قرار دیا گیا ہے۔ 2016 میں پاکستان کی پارلیمان نے ایک ترمیمی بل منظور کیا تھا جس کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو ناقابلِ راضی نامہ جرم قرار دیا گیا۔ اس قانون کے تحت اب مدعی (یعنی مقتول کے ورثا) قاتل کو معاف کر کے اسے سزائے موت سے نہیں بچا سکتے۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں اس قانون پر عمل درآمد اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔