اٹھائیس مئی کو یوم تکبیر سے تشبیہ دینا بلوچوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔ این ڈی پی

78

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ سامراج نے ہمیشہ مظلوم اقوام اور انکی زمینوں کو اپنے مفاد میں استعمال کیا ہے اور اس مقصد کے لئے نوآبادیاتی نظام کے تحت بہت سے پالیسیوں سمیت مذھب بھی کو ٹول کی طرح استعمال کیا بلکل اسی طرح بلوچوں کے مرضی و منشا اور قومی شناخت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام کے نام پر ریاست قلات کا جبری الحاق کیا گیا جس کے رد عمل میں بلوچوں کی جدوجہد آج تک جاری ہے ۔ مگر اس کے باوجود پاکستان نے انڈیا کے ایٹمی تجربے کے جواب میں بلوچستان کے راسکوہ پر قہر ڈھا کر اٹھائیس مئی انیس اٹھانوے کو تکبیر کے نام پر چاغی کو زہر آلود کیا ۔پاکستان کے پاس چاغی جیسا آباد علاقہ آخری انتخاب قطعی نہ تھا بلکہ اسکے پاس چولستان جیسے کئی غیر آباد ریگستانی علاقے موجود تھے جنہیں دشمنی کی بھینٹ چھڑا کر ایسے کسی قسم کی زہریلی تجربے کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

ترجمان نےکہا کہ دنیا میں اس سے قبل کئی زہریلی تجربے ہوئے جنہیں خاص پروٹوکول اور حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے سرانجام دیا گیا مگر پاکستان نے صرف چند کلومیٹر پر آباد انسانی آبادی کو ملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوئے اس علاقے کا انتخاب کیا اور پروٹوکول میں صرف قریبی قصبوں کو لا علم رکھ کر جبرا علاقہ بدر کیا گیا۔ اس سے پہلے اور نا ہی اس کے بعد اس علاقے میں بسے بلوچوں کی داد رسی کسی نے کی۔ یہ صرف پانچ دس منٹ میں تجربے کے دورانئے کی بات نہیں بلکہ سالوں تک تابکاری کی شعائیں یہاں پھیلتی رہیں گی اور ان نیوکلئر تجربوں سے نکلنے والی آئیونی تابکاری کی شعائیں انسانی خلیے کے لئے نہایت ہی نقصاندہ ثابت ہوتی ہیں جسکا سب سے بڑا خطرہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو جانا ہے۔اسکے علاوہ قلب و عروقی مرض، موتیا سمیت آنکھوں کی مختلف بیماریاں، گردوں کا فیل ہو جانا ،ناقص غذائیت کی وجہ سے کم وزن اور معزور بچوں کی پیدائش ، حمل کے دوران خواتین میں مختلف بیماریاں معمول اور کینسر جیسے موضی مرض کے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جس کے واضح اثرات بلوچستان میں آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ان تجربوں نے نا صرف انسانی آبادی پر منفی اثرات مرتب کیے بلکہ یہاں بسے تمام جاندار بشمول چرند پرند وجانور بھی راسکو کی مٹی کے ساتھ راکھ بن گئے۔ یہاں تقریبا ساتھ سالوں تک بارش نا ہونے کی وجہ سے قحط سالی نے اپنے پنجے گھاڈ دیے ، سر سبز زمینیں غیر آباد ہوئیں، فصلیں تباہ ہوئیں، صدیوں سے رواں دواں پانی کے چشمے سوکھ گئے، مال مویشی تباہ ہوئے یعنی ہر قسم کے جاندار کے لئے یہاں جینا مہال بن چکا تھا جس کی وجہ سے سینکڑوں خاندانوں نے خشک سالی سے تنگ آ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ چاغی میں اس تجربے کے بعد ماحولیات میں تابکاری کے اثرات آج بھی محسوس کیئے جاتے ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں پارلیمان جیسے ادارے کو کٹھ پتلی سے تشبیع دینے کے لئے بھی یہ کافی ہے کہ اس وقت کے وزیر اعلی برملا کہتے ہیں کہ انہیں علم میں لائے بغیر بلوچستان میں ایٹمی تجربہ کیا گیا یعنی لوکل انتظامیہ ، بیوروکریسی ، قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے بھی اس عمل سے لا علم رہے ۔بلوچ قومی منشا کو بالائےطاق رکھ کر انہیں علم میں لائے بغیر چاغی کی سر زمین پر ایٹمی دھماکہ کرنا انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی قرار دیتے ہیں اور اس دن عام تعطیل کا اعلان کر کے یوم تکبیر کے نام پر جشن بلوچوں کے زخم پر نمک پاشی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس لئے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سمجھتی ہے کہ اٹھائیس مئی کو ایٹمی دھماکوں کو یوم تکبیر یعنی قربانی کے درس سے تشبیہ دے کر بلوچوں کی قربانی دی گئی اسی لئے اس دن کو صرف ریاستی قہر قرار دے کر یوم آسروخ تصور کرتے ہیں۔