ٹھیکیدار کی بیٹی کے لئے سوشل میڈیا کے ٹھیکیداروں پر چڑھائی – رضوان عبدالرحمان عبداللہ

538

ٹھیکیدار کی بیٹی کے لئے سوشل میڈیا کے ٹھیکیداروں پر چڑھائی

تحریر: رضوان عبدالرحمان عبداللہ

دی بلوچستان پوسٹ

سوشل میڈیا کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں اس کراہت آنگیز واردات میں ایک دوسرے شعبے کے ٹھیکیدار کو آڑے ہاتھوں لینے کی سو دیگر وجوہات ہو سکتیں ہیں لیکن وہ وجوہات ہر گز نہیں ہیں جن کی آڑ میں بیشتر خود کو ارتغرل کے ہم پلہ بنانے پر تلے ہیں۔ اس دلیل کو کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے؟ فقط اس واقعے میں ملوث کرداروں کے صنف اور حسب و نسب کو بدل کر دیکھیں، واقعے کی نزاکت میں خودبخود کمی آ جائے گی۔

فرض کرتے ہیں فرش پر پڑے خون آلود پیروں کے نشان کسی ’’عامی‘‘ کے بدمعاملگی کا نتجہ ہوتے تو کیا پھر بھی یہ مناظر سوشل میڈیا پر اتنا ہی دہشت ناک نظر آتے؟ نہیں۔۔ کیونکہ اگر کوئی معمولی قسم کا محب کوئی بنیاد بنا کر محبوب یا محبوب کے شریک کو دبوچتا، تو اس قسم کی حرکت کو ایک ”عامیانہ” حرکت کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا۔

دوسرا فرض کیجئے اگر ہمارے پدرشاہی نظام میں وقوع پذیر ہونے والے اس سرگزشت میں خاتون حملہ آور کی جگہ کوئی مرد اپنے شریک سے اس قسم کی دست اندازی کرتا پایا جاتا، کیا پھر بھی سوشل میڈیا پر حالیہ قسم کی قیامت پرپا ہو پاتی؟ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا، کچھ لوگ حملہ آور کو بیوی سنبھال نا پانے پر مردانہ کمزوری کا طعنہ دیتے جبکہ دیگر شریک کو “سنبھال” نا پاسکنے پرغیرت کو لعن طعن کرکے چلتے بنتے ۔

مانیں نا مانیں جن عوامل کی وجہ سے یہ واقعے حد سے زیادہ رنگین اور سنگین بنایا گیا وہ مرکزی کرداروں کا صنف نازک ہونے کے ساتھ ایک کا اشرافیہ اور دوسرے کا فنکار ہونا تھا۔ جس نے ہم کی بورڈ مابرین کو ایک ایسا موضوع تھالی میں سجا کر پیش کیا جس پر نا صرف ہم اپنی برسوں کی پنیتی محرومیوں کی بھڑاس نکال سکتے تھے بلکہ خود کو خدائی فوجدار سمجھ کر دوسروں کے شرافت کے لبادے میں بھی جھانک سکتے تھے۔

ورنہ اگر طبقاتی نظام کو چیلنج کرنا مقصود ہوتا پچھلے کئی سالوں ہم لوٹ کھسوٹ کے ان گرم بازاروں پر ٹریںڈ چلا رہے ہوتے، جن میں ٹھیکیدار صاحب کا براہ راست نام بھی آتا ہے۔ بلکہ شاید ہماری آںکھوں سے اوکاڑہ فارم اور کونے کھودروں سے ملنے والی لاشوں کے مقامات بھی اوجھل نا ہوتے۔ اور اگر اب تک ایسے ٹرینڈز چل چکے ہوتے تو ان میں انتظامیہ کی بے بسی، قانون کی لاچارگی اور ادھیڑ عمر میڈیا کے منہ میں چوسنی لینے کی مجبوری کے پیچھے کے کارفرما عوامل کا بھی کچھ نا کچھ پتہ چل چکا ہوتا۔

خیر اگر ابھی بھی بہت سے بضد ہیں کہ ان کی گریہ و زاری کی وجہ عورت پر ہونے والی یہ دراندازی ہے، تو ان کی معلومات میں اضافہ کرنا چاہوں گا کہ آج سے دس روز قبل وزیرستان میں اس زیادہ سفاک واقعہ درپیش آیا تھا۔ ایک ویڈیو پر غیرت کھا کر چچا زاد بھائی نے 16 اور 18 سالہ لڑکیوں کو قتل کیا۔ اس واقعے پر کتنے سوشل میڈیا کے جنگجوں کو ہتھیار آٹھانے کی توفیق ہوئی؟ کیا وکلا کی فوج نے متاثرین کے گھر پر دستک دے کر ان کو مفت قانونی معاونت کی پیشکشیں کیں؟ یہاں پر تو خبر نشر کرتے وقت ّ’’بااثر‘‘ یا ’’اہم شخصیت‘‘ کی لیپا پوتی کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی تو کیا وجہ ہے کہ میڈیا کی چنگھاڑ میں وہ طاقت نظر نہیں آئی؟

بات سادھی سی ہے کیونکہ وہاں کے علاقائی رسم و رواج کو مد نظر رکھتے ہوئے اس واقعے کی بھی رنگینیت و سنگینیت میں وہ شدت نہیں تھی جو ہمارے ضمیر ملامت ہوئے کرتے ہوئے ہمیں کی بورڈز پر انگلیاں تھرکانے پر مجبور کرتے۔

ٹھیکیدار کی بیٹی کے اس کیس میں یہ حوصلہ شکنی کرنا ہر گز مقصود نہیں کہ ظلم کے خلاف آواز نہیں آٹھانی چاہیے۔ آواز ضرور آٹھائیں لیکن تھوڑے معاملہ فہم بن کر۔ اس معاملے میں کوئی کنارہ کیسے چنا جا سکتا ہے جہاں ایک فریق اپنی حرکات کے دفاع میں گیارہ سال کا بچے اور دوسرا اعتکاف کو لے کر کھڑا ہوا ہو۔۔ ایک لاکھ اسی ہزار کے کرایے میں بسنے والوں کو لاچار تصور کیا جارہا ہو جبکہ مرد گارڈز کے ذریعے دھونس جمانے والوں کو اخلاقی برتری حاصل ہورہی ہے۔ مان لیں کہ ایسی گتھیاں سوشل میڈیا پر نہیں سلجھائی جا سکتیں جن کے اندر پردہ در پردہ حقیقت مخفی ہیں۔ یہ حق قانونی نظام کے پاس ہے کہ وہ کھوج لگائیں، ہم تو اس کھوج کے دوران نظر آںے والے سقموں کی نشاندہی ہی کر سکتے ہیں۔

خیر اس واقعے میں دھاوا بولنے والوں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں، زد نشانہ عورت ذات بنا کر جو دو متحارب گروپ ایک دوسرے پر مسلسل گولہ بارود برسا رہے تھے وہ بھی تھک ہار کر لوٹ چکے ہیں۔ متوقع خوشخبری یہ ہی کہ انشااللہ یہ سب ’’غازی‘‘ بن کر لوٹیں گے۔ معاملہ اس خوش اسلوبی سے نمٹے گا کہ ایک فریق یہ بھول جائے گا اس کے قانونی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے جبکہ دوسرا فریق اخلاقی آڑ کی جانے والے اس داخل اندازی کے دفاع سے تائب ہو جائے گا۔ جس کے بعد ’’مرد گردی‘‘ کی شکار ہونے والی دونوں خواتین کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں عثمان بزدار سی معصومیت رکھنے والا عثمان کے طرز عمل پر بھی غور کر کے کوئی منطقی نتیجہ اخز کریں۔

آخر میں ان لوگوں سے جو کو اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہر معاملے میں مداخلت کرنے والے ملک کے اصل ٹھیکدار نے اس نجی معاملے میں مداخلت نہیں کی تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے ادارے کی ساری توجہ ابھی ٹڈی دل کے خلاف دفاعی حکمت عملی مرتب کرنے میں مرکوز ہے، ان کے فراغت کا انتظار کریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔