اگر زندہ ہوتا کہانی لکھتا – اسد بلوچ

382

اگر زندہ ہوتا کہانی لکھتا

تحریر: اسد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ صبح صادق کا وقت ہے اور میں دو دنوں سے معمولی ہواؤں کے باعث بجلی کے کئی کھمبے گرنے کی وجہ سے، بغیر بجلی، سخت گرمی میں پسینے سے شرابور ایک ایسے نوجوان لکھت کار کا نوحہ لکھ رہا ہوں، جس کا تعلق اسی مٹی سے رہا مگر اس روشن اور سوچنے والے ذہن کو ایسے دیار میں قتل کیا گیا جہاں بجلی کا جانا حیرت کی بات ہوگی۔ جہاں مجھ جیسا کوئی محض بجلی نہ ہونے پر پسینہ نہیں بہاتا۔ مئی میں گرمی جوبن پہ ہے، صبح سویرے گرمی کی شدت سے میں پسینے میں شرابور اپنے بڑوں سے سنی ہوئی کہانی سوچ رہا ہوں جو فسانہ نہیں ہمارے سماج کا ایک کڑوا سچائی ہے۔ ہمارے بڑے بتاتے ہیں کہ پاکستان سے قبل یہاں سردار اور حاکم عوام کے قسمت کے مالک ہوا کرتے تھے، ان مالکوں اور خودساختہ سرداروں کو کسی شخص کی کوئی چیز پسند آتا تو پھر وہ اپنے اصل مالک کا نہیں رہتا، سردار کے اگلے دن دو چار کارندے آکر اسے لے جاتے، سبب حاکم کی پسند ہوتی، ایسے میں لوگ مجبوراً اپنے بہترین چیزوں، اشیاء اور مال مویشی چھپاتے یا ان میں عیب ڈالتے تاکہ سردار کی پسندیدگی کا باعث نہ ہوں حتیٰ کہ چار پائی کا ایک پایا توڑ دیتے یا اس میں عیب ڈالنے کے لیے اس پر پیویند لگاتے، بکریوں کی سینگیں کاٹ ڈالتے تاکہ ان کی پسندیدہ چیزیں خود ان کے ہی پاس محفوظ رہیں، بھلے ان میں خود کا لگایا عیب یا نقص ہو۔ سردار کا خوف سماج کا مجموعی خوف تھا جس سے کوئی شہری مبرا نہ تھا۔

میں مگر سوچ رہا ہوں کہ حاکمیت کا وہی سفاکانہ طریقہ اب بھی یہاں رائج ہے، فرق یہ ہے کہ آج کا حاکم خوب صورت اشیاء لیجانے کے بجائے ہمارے روشن اذھان کو تہہ خاک اور خوب صورت بچوں کو کھائے جارہا ہے۔

شاید جہاں پر ساجد حسین کو لاپتہ اور پھر اپسالا کے ندی میں لاش بنا کر بلوچستان کو درد پہنچانے والے سویڈن میں ایسا ہونا بڑا واقعہ ہو، مگر بلوچ کے روشن اذھان کو غائب اور پھر مسخ لاش بنا کر ویرانوں بیابانوں میں گلنے سڑنے کے لیئے پھینک دیا جانا خود بلوچستان میں دو دہائیوں سے معمول کے واقعات ہیں۔

بلوچستان کی ایک الگ کہانی ہے اور یہ کہانی زمانے کے ہر داؤ پیچ میں ظاہری حیثیت کی معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ہمیشہ ان کے ساتھ رہا ہے۔ مقامی افراد اور نوابوں کے کل کے وہ سفاکانہ کہانیاں جنہیں ہمارے بڑے ہمیں سناتے رہے ہم اپنے بچوں کو مستقبل میں وہی کہانیاں کچھ فرق کے ساتھ گوش گذار کرتے رہیں گے، ہم انہیں بتائیں گے کہ کیسے ہمارے دوست، ساتھی، عزیز، کلاس فیلوز اور روم میٹ راتوں کو اٹھائے گئے پھر کچھ خوش قسمت مسخ لاش کی صورت کسی ویران و بیابان، پہاڑی درے یا ندی اور سڑک کنارے ہمیں واپس دیئے گئے اور بہت سارے سالوں سال ایسے غائب رہے جیسے ان کی ماؤں نے کبھی ان کو جنا نہیں تھا، یہ ہماری کہانیاں ہوں گی، گوکہ خوب صورت کہانیاں نہیں مگر اپنے بچوں سے کیا جھوٹ بھی بولا جاسکتا ہے؟ جب ہمارا واسطہ ہی ایسی دلخراش حقائق سے پڑا ہے تو ان کو چھپا کر ہم اپنی قسمت سے راہ فرار کیوں کر اختیار کریں۔

بلوچستان جو وسائل سے مالا مال خطہ ہے، یہاں پچھلے دو دہائیوں سے المناکیوں کی کئی داستانیں ہیں، ہر داستان دوسرے سے الگ اور زیادہ تلخ ہے میں ساجد سے کبھی واقف نہیں ہوتا جب وہ بلوچستان سے قلم کی صورت محبت کا اظہار نہ کرتے، بلوچستان جو ہم دونوں کا مشترکہ جنم بھومی ہے اسے ہر بلوچ شوق اور فخر سے مادر وطن کہہ کر پکارتا ہے۔

ایک دفعہ ساجد ہی نے دڑامب کے محفوظ پہاڑوں کو بلوچ مزاحمت کا رحم مادر لکھا تھا، مجھے یہ اصلاح ایسا بھا گیا کہ اپنے ایک آرٹیکل میں حوالے کے ساتھ اسے دہرا دیا اور آج بھی اسے یاد کرتا ہوں تو خوشی کی ایک الگ کیفیت ہوتی ہے کیا خوب صورت اصطلاح استعمال کیا تھا، مگر وہی ساجد حسین جو سوچنے اور پھر نوحہ زاری کا گر قلم کے زریعے کرنے کا ہنر مند تھا قتل کردیا گیا۔ ساجد حسین کا قتل بیس سالوں کے دوران بلوچ سماج پر پڑے گہرے چاہوں جیسا کوئی معمول کا معمولی واقعہ تو ہرگز نہیں کہ جسے ایک معمول کی کہانی کی صورت اپنے بچوں کو سنانے کے لیے اپنے پاس زندہ رکھا جائے۔ ساجد حسین ایک روشن دماغ تھا، جو اپنی مٹی کی محبت میں یہاں کے سفاکیوں کی کہانیاں لکھتا تھا، دوردیار میں بیٹھ کر بلوچستان کی قہر زدہ کہانیوں کا لکھت کار ایک دن ایسے ملک میں غائب کردیا گیا جہاں ہم نے ایسا ہونا سوچا نہیں تھا اور پھر بلوچستان کی معمول کی مسخ لاشوں کی صورت ایک دن ساجد حسین ایک لاش کی صورت اپسالا کے کسی ندی میں مل گیا۔

میں آج تک غلام محمد کی شہادت کو اپنے مقہور سماج کے لیئے ایک فکری رہبر کا ایسا قتل سمجھتا رہا ہوں، جس کے بعد اس سماج کو سیاسی طور پر مکمل بانجھ بنانے کا فیصلہ کیا گیا، غلام محمد ایک سمبل تھا جب اپسالا سے ساجد حسین کے لاش کی برآمدگی ہوئی تو محسوس ہوا کہ بلوچ روشن دماغ اور سوچنے والے کہانی کاروں کی یہ باری ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ساجد حسین کی بدقسمتی کہیں کہ اگر وہ کسی مہذب اور ذمہ دار ریاست کا شہری ہوتا تو ایک دن ضرور اپسالا میں ٹرین سے اغوا اور ندی تک کے سفر میں ان کے قتل کے محرکات سامنے آتے۔ اگر خود ساجد حسین زندہ رہتا تو یقیناً اپنے طریقے سے وہ ان حقائق کا کھوج لگاتے جو بلوچستان سے شروع ہوئی سفر اپسالا کے کسی ندی تک اختتام کو پہنچی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔