کیچ سے مزید چار افراد فورسز کے ہاتھوں لاپتہ

375

چاروں نوجوانوں کو فورسز اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کیا۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ضلع کیچ کے علاقے تمپ سرنکن میں پاکستانی فورسز نے چھاپے کے دوران چار نوجوانوں کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے جس کے بعد ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔

حراست بعد لاپتہ ہونے والوں کی شناخت بیروز ولد ماسٹر صمد، علی حیدر ولد دلجان، مسلم ولد غلام خان اور شاہ دوست ولدرحیم بخش کے ناموں سے ہوئی ہے۔

علاقائی ذرائع کے مطابق دوران چھاپہ فورسز اہلکاروں نے گھروں میں موجود خواتین اور بچوں کو بھی حراساں کیا اور ان کے پاس موجود موبائل اپنے قبضے میں لیکر گئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ چاروں افراد تیل کے کاروبار سے منسلک ہے۔ سرحدی راستے بند ہونے کے باعث مذکورہ افراد واپس اپنے گھروں کو پہنچے تھے کہ فورسز اہلکاروں نے انہیں حراست میں لیا۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تاحال اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔

خیال رہے گذشتہ روز دشت کے علاقے بلنگور سے بھی چار افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں جبکہ اس سے قبل خاران سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے طالب علم ثناء بلوچ کے فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کی خبر سامنے آئی تھی۔

ثناء بلوچ کے جبری گمشدگی پر سیاسی، سماجی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر ایک کمپئین چلائی گئی جو ٹاپ ٹرینڈ میں رہا۔

علاوہ ازیں 14 اپریل کو کراچی سے نسیم بلوچ کے جبری گمشدگی کو ایک سال مکمل ہونے پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے کمپئین چلائی گئی۔ اسی طرح کوئٹہ کے علاقے کلی قمبرانی کے رہائشی حزب اللہ قمبرانی اور حسان قمبرانی کے جبری گمشدگی کو گذشتہ روز چار مہینے مکمل ہوگئے۔

وی بی ایم پی نے حسان قمبرانی اور حزب اللہ قمبرانی سمیت دیگر لاپتہ افراد کو رہا کرنے کی اپیل کی جبکہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وی بی ایم پی کی جانب سے جبری گمشدگیوں کیخلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔