شہید ریحان جان ایک عظیم انقلاب – شہزاد شاہ

638

شہید ریحان جان ایک عظیم انقلاب

تحریر: شہزاد شاہ

دی بلوچستان پوسٹ

ایثار و قربانی کے بغیر اپنے مقصدکو حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اجتہاد و جدوجہد کا عمل اُس وقت کامیاب ہوتا ہے، جب انسان اُس، شے، کو من لگا کر چاہتا ہو یا پھر اُسکی ضرورت محسوس کرتا ہو۔ ایسے لمحوں میں اگر اُس شخص نے قربانی دینے سے اپنے آپکو کنارہ کش کیا، تو وہ حقیقی سچائی ایک ناممکن خواب سا بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی کوششوں کو تادم مرگ رائیگاں ہونے نہیں دیتے، جو اپنے مقصد کی کامیابی کیلئے دل و جان لگا دیتے ہیں۔ ایسے شخصیات میں ڈر، خوف، بزدلی، کاہلی، سستی، حوصلہ شکنی جیسے منفی جذبات اثر انداز نہیں ہوتے۔

وہ اپنے مقصد کیلئے قربانی دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ ایسے انقلابی گذرنے کے بعد بھی امر ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ تا ابد الفاظ می‍ں نقش ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں بس جاتے ہیں۔ اپنی جسمانی ساخت کھو کر بھی ایک امید و زندگی اور فکر و نظریہ بن جاتے ہیں۔ بلوچ تحریک میں ایک ایسا ہی آتش نمودار ہوا، جس نے دشمن کو یہ باور کرایا کہ وطن کی خاطر وہ اپنے آپ کو قربان کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

کس کو کیا خبر تھی کہ لمہ یاسمین کی گود میں ایک ایسا ہی پھول مسکراتا ہوا، ریحان جان، ایک دن بڑا ہوکر بلوچ قومی تحریک کیلئے اپنی زندگی کی خواہشات سے گریز کرکے، خود زندگی کو ہی وطن کی خاطر قربان کردیگا۔

فدائی بننا ایک آسان کام نہیں۔ اس عظیم عمل میں آپ جس پاکیزہ وطن کی پاسداری کیلئے فدا ہورہے ہو، دوبارہ اُسکے آنگن میں نہیں رہ پاؤگے۔ بولان کی سخت گرمی اور قلات کے ٹھنڈے پہاڑوں کو چھوڑ کر جاؤگے۔ ہم بازو، ہمنوا، ہم فکر ساتھیوں کو چھوڑ کرجاؤگے۔ اُن لیڈروں اور ماں باپ کو چھوڑ کر جاؤگے کہ جنہوں نے اپنی انتھک جدوجہد سے آزادی کے اس سرچشمے کو دکھایا ہے۔ البتہ وہ بلوچ جس نے ریحان جان کی طرح اِن سب کو محض بلوچستان کی آزادی کیلئے قربان کیا ہو، یقیناً وہ ایک عظیم انقلابی ہوگا۔ وہ اس گلستان کا ایک سنہرا پھول بن کر جنم لےگا۔ اس خاک میں بس کر دشمن کو ہر لمحے خوف و دہشت کی زندگی گذارنے پر مجبور کرتا رہے گا۔..

ماں ایک ایسی ہستی ہے، جس کو دنیا کے تمام مذاہب، فلسفہ اور نظریات ایک اعلیٰ مقام عطا کرتے ہیں۔ انہی ماؤں میں کچھ مائیں اسطرح کے عمل سے وابستہ ہوتے ہیں کہ وہ ان حدوں کو بھی پار کرتے ہیں۔ انہی عظیم انقلابی ماؤں میں ایک فکری و نظریاتی ماں لمہ یاسمین نکلی۔ جنہوں نے خود اپنے بیٹے کو شادی کا سہرا پہنانے کےبجائے، آزاد بلوچستان کا پرچم سر پر باندھ کرخُوشی خوشی یہ کہہ کر الوداع کیا کہ جا میرے لال میں نے تمہیں وطن کے نام کردیا۔

شہید جنرل اسلم بلوچ، آپ کی زندہ دلی و جرات کو ہم سرخ سلام پیش کرتےہیں۔ ہم فخر کرتے ہیں آپ پر کہ آپ نے مجید بریگیڈ کو ایک بار پھر عملی جامعہ پہنایا۔ بلوچ قومی تحریک ہماری نس نس میں بس کر ایک زندہ و حیات عقیدہ بن کر رہ گئی ہے۔ اس خاک نے ریحان جان جیسے ہزاروں فدائیوں کو جنم دیا ہے۔ لمہ یاسمین کی طرح کئیوں نے اپنے لخت جگروں کے سر پر کفن باندھے رکھا ہے۔ شہید اُستاد جنرل اسلم بلوچ کی طرح بہتوں نے شہید ہونے کا نظریہ رکھا ہے۔

ریحان جان آپکی وطن سے وابستہ اُمیدوں کو ہم ایک دن ضرور عملی جامعپ پہنائینگے۔ آپ کے اور دیگر بلوچ قومی جہدکاروں کے دکھائے ہوئے رستوں کو کبھی ویران نہیں چھوڑینگے۔ اپنی زندگی داؤ پھر لگا دینگے لیکن کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔