سورج کا شہر (سفر نامہ) | قسط 12 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

470

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
بلوچ ساحل و سمندر (آخری حصہ)

ماہی گیر کے لیے بلوچی زبان میں عمومی لفظ ”مید“(Sea man) استعمال ہوتا ہے۔ یعنی مچھلی پکڑنے والا۔ اسی لفظ سے یہاں گوادر میں ایک محلہ آباد ہے جسے ”میدا، نی، پاڑہ“ کہتے ہیں، یعنی ماہی گیروں کی بستی۔ یہاں کے مقامی باشندوں کے دیگر محلوں کے نام ہیں؛ کمان وارڈ، کولگری وارڈ، ملا بندوارڈ، شادو بند وارڈ، کوبن وارڈ، بلوچ وارڈ، ملا کریم بخش وارڈ، شیخ عمر وارڈ، اور، گزروان وارڈ، وغیرہ۔

ہمارے ان بلوچ محنت کشوں کے پاس ماہی گیری کی کوئی جدید سہولت نہیں ہے۔ ہمارے یہ گونڈل عملاً بے تیغ ہیں۔ یہ لوگ سمندر کے نبض شناس ہوتے ہیں۔ محض ستاروں کی مدد سے اپنا پیداواری عمل بجا لاتے ہیں حتیٰ کہ یہ افریقہ کے ساحلوں تک آتے جاتے ہیں…… یہی ہیں ہمارے ماہر فلکیات، ہمارے علمائے نجوم…… انہیں اپنے سمندروں سے اس قدر واقفیت ہے کہ محض تجربے کی بنا پر ان کو معلوم ہوتا ہے کہ سمندر کا کون سا علاقہ گہرا ہے، زیرِ زمین کہاں چٹانیں چُھپی ہوئی ہیں جہاں ان کی کشتی ٹکرا کر ٹوٹ سکتی ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کیچڑ اور دلدل والا علاقہ کون سا ہے۔ اور وہ زیر آب مچھلیوں کی قسم اور متوقع شکار کی تعداد کا ٹھیک اندازہ کرکے جال ڈال دیتے ہیں۔ (کتنا اچھا ہو، اگر انہی ماہی گیروں میں سے ایک پاکستان کا وزیر ماہی گیری ہو، ایک وزیر تجارت، ایک بحریہ کا سربراہ، اور ایک بلوچستان کا وزیر اعلیٰ)۔

جو ماہی گیر دوپہر کے بعد سے عصر کے وقت تک سمندر جاتے ہیں، اس وقت کا نام ”شب ریچ“ ہے۔ کانٹے ڈور کی مدد سے مچھلی پکڑنے کے کام کا نام ”چیران“ ہے۔ دستی جالوں کی مدد سے چھوٹی مچھلیوں کے شکار کا نام ”گند“ ہے۔ اسی طرح ”چیر آپ“، ”بندیگ“، ”جل“، ”برام“ اور”کیگٹنا“ شکار کے مختلف طریقوں کے نام ہیں۔ مدگ پکڑنے کا موسم سرما ہے، تاہم گرمیوں میں بھی اس کا شکار ہوتا ہے۔

لانچ ایک ٹرپ میں تین سے چار ہزار مچھلیاں پکڑتی ہے۔ واپسی پہ جب یہ مچھلی جیٹی پربولی کے ذریعے بکتی ہے تو حاصل شدہ رقم میں سے سفر کے سارے اخراجات نکالے جاتے ہیں۔ ان اخراجات میں ٹیکس، کمیشن، رشوت، جرمانہ، خوراک، مرمت اور ایندھن وغیرہ شامل ہیں۔ بقیہ جو رقم بچ جاتی ہے، وہ آدھی آدھی بانٹ دی جا تی ہے۔ آدھا تو سیدھا مالک لے جاتا ہے، بنا کسی محنت کے، بغیر ہاتھ پاؤں ہلائے۔ محض اس لیے کہ اس کے پاس حلال حرام کا پیسہ تھا جس سے اس نے آلاتِ پیداوار (لانچ، جال انجن، ونیچ) خرید رکھے تھے۔ بقیہ آدھے حصے میں چار حصے ناھدا کے، ڈیڑھ حصہ سارنگ (سرہنگ) کا، ایک ایک حصہ ہر خلاصی کا اور ایک حصہ ڈرائیور کا ہوجاتا ہے۔

اختیارات کی بات کریں تومالک سب کا مختار ہے۔ وہ ساری اسمبلی، پوری کابینہ یا کسی بھی فرد کو بر طرف کرسکتا ہے۔
ناہدا کو مالک ہی نکال سکتا ہے۔ سارنگ کو نکال دینے کا اختیار مالک کو بھی ہے اور ناہدا کو بھی۔ اور خلاصی کو سب نکال سکتے ہیں بغیر وجہ بتائے، بغیر چارج شیٹ کے، بغیر جواب طلبی اور انکوائری کے۔ جنگل میں تو چلتا ہی جنگل کا قانون ہے، شہر میں بھی جنگل کا قانون اور اب سمندر میں بھی جنگل کا قانون…… حضرت ِ انسان، تجھے خدا عقل دے، حضرتِ بلوچ تجھے خدا سمجھائے۔

گوکہ عورتیں گوادر میں تو کھلے سمندر میں نہیں جاتیں مگر بحیرہ ِبلوچ کی دیگر بندرگاہوں میں بلوچ عورتیں کھلے سمندر میں باقاعدہ ماہی گیری کرتی ہیں۔ (بلوچ میں صنف ِنازک کا بھونڈا تصور اب تک موجود نہیں ہے)۔

سمندر سے لانچ بیس پچیس دن بعد ساحل پہ واپس آتی ہے۔ دو چار دن مرمت، ایندھن، خوراک پانی لینے میں لگ جاتے ہیں اور یہی دو چار دن ماہی گیروں کی سوشل لائف کے ہوتے ہیں۔ ابھی بال بچوں سے ملنے بھی نہیں پاتے کہ پھر سمندر، پھر ماہی گیری، پھر مزدوری، مشقت۔ زمینی دنیا میں انسانوں کی بستی میں محض چار دن؟۔ کسی کی فاتحہ، کسی کی شادی، تیمارداری…… کیا کچھ ہوسکتا ہے چار دنوں میں؟۔ نہ آپ تصور کرسکتے ہیں اور نہ میں بیان کر پانے کا اہل ہوں۔

ہمارے ماہی گیروں کا بد ترین استحصال سرمایہ دار کے ہاتھوں ہوتا رہا ہے۔ ہمارے یہ خلاصی جو ناہدا کے بھی مقروض ہوتے ہیں اور مالک کے بھی، کشتی پر غلاموں کی طرح وابستہ رہتے ہیں۔ ایک کا قرضہ ادا کرنے اور وہاں سے جان چھڑانے کے لیے دوسرے کی کشتی پر خود کو بیچنا پڑتا ہے۔

”مید“ تو نچلے درجے کا شہری تصور ہوتا رہا ہے۔ آپ تو یقین نہیں کریں گے مگر سچ یہ ہے کہ مید اسی صف میں شامل کیے جاتے ہیں۔ مید جو روزی رساں ہیں، مشرق کے مخصوص ملاح ہیں، بے پرواہ اور لا ابالے ہیں، مضبوط توانا، تڑنگے، اتھلیٹ جیسے ہٹے کٹے ہیں۔ ایسے اشراف المخلوق کو نچلی ذات کا سمجھا جاتا ہے جو سمندر میں بہت دیر تک رہنے کی قوت برداشت رکھتے ہیں، کسی بھی انسانی نسل سے زیادہ۔ ان کے ہاتھ پتھر جیسے سخت اور بلوچستان جیسے کھردرے ہوتے ہیں۔

مکران میں جن دوسرے لوگوں کو کم ذات سمجھا جاتارہا، ان میں درازدہ، لوڑی، اور غلاموں کی اولاد شامل ہیں، (بقول گزٹیر، مکران صفحہ نمبر106)۔ دنیا کے ہر طبقاتی سماج کی طرح، بلوچ سماج میں بھی یہ بد ذات، کمی، کمینے، اور نچلی ذاتیں کوئی نہ کوئی محنت مشقت والا کام کرتے ہیں………… مید، ماہی گیری کا پاک اور حلال محنت کرتے ہیں۔ درزادہ بے زمین کسان، مزارع اور کھیت مزدور ہیں۔ لوڑی دست کار ہیں۔ اور غلاموں کی اولاد زرعی مزدوری کرتے ہیں یا گھروں میں کام کرتے ہیں۔
یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ دنیا بھر میں محنت کش لوگوں کو ہی کم ذات گردانا گیا ہے۔ مفت خور طبقات میں کبھی بھی کم ذات پیدا نہیں ہوتے۔

دوسری نچلی ذاتوں میں کسان ہیں جنہیں درزادہ یا نکیب کہتے ہیں۔ یہ لوگ ساحلی علاقے میں بھی رہتے ہیں اور اندرون بھی۔
پھر موسیقار ہیں، جنہیں لوڑی کہتے ہیں۔ یہ لوگ خانہ بدوش لوگ ہیں، پورے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے جو لوگ زمین پہ مستقل آباد ہیں، انہیں سرمستانڑیں (سرمست کی اولاد) اور زنگی شاہی کہا جاتا ہے۔ سارے لوڑی یا لوری یا تو ہینڈی کرافٹس میں مشغول ہیں (قالین، لوہار، سنار، موسیقار اور گلو کار، بڑھئی (دار تراش)، لوہار (آسن کار)، سنار (زرگر)، ڈھول بجانے والے (دوھلی)، تاریخی کلاسیکی شاعری یاد رکھنے اور سنانے والا (پہلوان)۔

کل وقتی گھریلو کارکن جنہیں غلام کہا جاتا ہے۔ کھوجے بھی نچلی ذاتوں میں شمار ہوتے تھے۔ یہ ہول سیل سوداگر زیادہ تر ماہی کی تجارت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ چٹائی، کپاس، پشم، خوراک وغیرہ کی درآمد برآمد کرتے ہیں۔ آغا خان کے ماننے والے ہیں۔ ان کا مذہبی پیشوا ”مُکھی“ کہلاتا ہے۔

ہندو بھی دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ یہاں وہ مسلمان کو ملیچھا قرار دینے کا نخرہ نہیں کرسکتے۔ وہ غلام عورتوں سے شادی بھی کرلیتے تھے۔

بلوچستان میں ان نچلی ذاتوں کے ساتھ سماجی نا انصافیوں کا حال گزیٹیئر نے یوں تحریر کیا ہے:
۔ یہ کسی عام بلوچ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں سکتے۔
۔ حقیر سے حقیر بلوچ کی موجودگی میں بھی یہ حال حوال دے یا لے نہیں سکتے۔
۔ عام بلوچوں کی لڑکی بیاہ نہیں سکتے۔
۔ ان کا خون بہا، یا تو سرے سے ہوتا ہی نہیں، یا بہت ہی معمولی ہوا کرتا تھا۔

ہم بلوچ بہت زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ غلط فہمیوں میں غرق ہوجاتے ہیں۔ ہماری ایک غلط فہمی یہ ہے کہ مکران میں سرداری نظام ختم ہوچکا ہے اور لوگ اس سے اگلے معاشی سماجی نظام میں داخل ہوچکے ہیں، اس لیے وہ ہماری سیاسی راہنمائی کریں گے (سب سے پہلے یہ غلط فہمی خود مجھے ہوئی تھی)۔ ایسا نہیں ہے۔ ایک تو ماضی بڑا خوف ناک رہا ہے، وہاں کا۔ مکران میں ایک اور بد ترین قسم کی برہمنی اور شو دری موجود رہی۔ برہمن کا مکران میں بلوچی نام گچکی تھا۔ میں کہیں یہ پڑھ کر حیران ہوا کہ جب گچکی رشتہ داریاں کرتے تھے تو دلہن کو جو چیزیں دیتے تھے ان کی لسٹ یہ تھی؛ زمین اور پانی کے دو ہنگام کھجور کے درختوں کے ساتھ، پھر سونا۔ پھر اللہ آپ کا بھلا کرے، ”بندگ“ یعنی غلام جن میں شامل ہیں چھ دانے مرد اور چھ عدد عورتیں ……

…… اب وہ مشرقی اور وسطی بلوچستان سے سردار درآمد کرکے اپنا لیڈر بناتے ہیں۔

فیوڈل طبقاتی سماج پہ کیا فخر، کیا افتخار!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔