جدت سے بھرپور تحریک – سیم زہری

357

جدت سے بھرپور تحریک

تحریر: سیم زہری

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی تحریک کے حالیہ دور کے شروعات میں دشمن بلوچ نوجوانوں کو اغواء کرکے مہینوں تک اپنے خفیہ ٹارچر سیلوں میں تشدد کا نشانہ بنا کر پھر کچھ عرصے بعد کسی پولیس تھانے میں پہنچا کر ان کے اوپر بوگس مقدمات درج کروا کر چلا جاتا.

جوں جوں بلوچ نوجوان بلوچ قومی فوج بی ایل اے میں شامل ہوتے گئے، کمانڈو ٹریننگ سمیت گوریلا چھاپہ مار کارروائیوں میں شدت لاتے گئے، دشمن بھی اپنا پینترا بدلتا رہا. اب ایک دور آیا جب کوئی بلوچ نوجوان بلوچ جہد کار دشمن کے ہاتھوں اغواء ہو جاتا تو بزدل دشمن اپنی غیر انسانی فطرت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے بعد کسی رات اندھیرے میں چھپ کر نوجوانوں کی لاشیں ویرانوں میں پھینک کر چلا جاتا. ان میں سے کچھ لاشیں ناقابل شناخت ہوتیں اور کچھ اجتماعی قبروں کی شکل میں دریافت ہوتے.

اس غیر انسانی عمل نے بلوچ نوجوانوں کو اس بات پر باور کرایا کہ دشمن انتہائی غیر مہذب ہے اور اس کے ہاتھوں گرفتار ہو کر لمحہ بہ لمحہ موت کے عمل سے گزرنے کی بجائے کیوں نہ اس کا مقابلہ کیا جائے. کیوں نہ مرتے مرتے دشمن کو اپنے وجود کا احساس دلایا جائے کہ بلوچ دھرتی پر تمھارے قبضے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا. کیوں نہ اپنی جیب میں اپنے لیے الگ سے ایک گولی سنبھال کر رکھی جائے تاکہ گولیاں ختم ہونے کی صورت میں دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے کی بجائے اپنی ہی گولی سے اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے دشمن کو شکست دی جائے. اس بار بلوچ اپنا فیصلہ کر چکا تھا کہ آخری گولی تک مقابلہ کرنا ہے اور آخری دم تک وطن کی حفاظت کرنی ہے.

17 مارچ 2010 کی صبح شال (کوئٹہ) واسیوں کی سوئی ہوئی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے بھرے شہر کے بیچوں بیچ ایک نوجوان دشمن کے گھیرے میں آنے کے بعد مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر مرتے مرتے دشمن کے دل و دماغ پر اپنی بہادری اور جانثاری کے ان مٹ نشان چھوڑ کر گل زمین کی کوکھ میں آسودہ خاک ہو گیا. پھر یہ سلسلہ چل پڑا. بلوچ ورنا اپنا تن من وطن کی حفاظت کے لیے نچھاور کرتے ہوئے لڑے، چلے، مر مٹے، تاریخ میں امر ہوتے گئے اور جاتے جاتے دشمن کو بھی بہت کچھ بتلا گئے. مستونگ میں شہید بابل جان ، اشرف ڈاکٹر منان و دیگر ساتھیوں نے آخری گولی تک مقابلہ کیا. تربت میں حمل و بیبرگ نے ساتھیوں کے ساتھ آخری سانس تک دشمن کے دانت کھٹے کئے. شور پارود میں امیر الملک، صمد، گزین نے دشمن فوج کو لوہے کے چنے چبوائے. اسی میدان سے اپنی آخری گولی سے اپنی موت کے اعلان کا فلسفہ جنم لیتا ہے، جسے آگے لے جاتے ہوئے شھید دلجان شھید بارگ جان تراسانی کے مقام پر تازہ کرتے ہیں.

شھید رضا جہانگیر، شھید شہیک سلیمان، اسلم و رفیق شاہسوار، روح زمان، عزیز ساسولی، چئیرمین فتح، نعیم یحییٰ نجیب پیرک ماما شمس و ساتھیوں نے ڈٹ کر آخر تک دشمن کے ساتھ مقابلہ کیا.

دشمن کو ہر محاذ پر شکست فاش دینے کے لیے اس بار فدائین کی قیادت کے لیے ورنا ریحان میدان جنگ میں اتر گیا اور سرخ رو ہو گیا. بلال، رازق، رئیس، ازل سمیت گوادر کو بیرونی حملہ آور دشمن سے پاک کرنے والے زِر پہازوک نے ریحان کے فلسفے کو جاری رکھا اور دشمن کو شکست دیتے رہے. بلوچ قومی جدوجہد مختلف مراحل سے گزر کر جدت کے ساتھ دشمن کے لیے ہر گھڑی مشکل پدا کرتی رہی.

بلوچ نوجوانوں نے بلوچ وطن کی آزادی، بلوچ قوم کی خوشحالی ترقی پسند سوچ کی آبیاری جدید دنیا سے ہم آہنگی جوڑنے مذہبی شدت پسندی، گھٹن زدہ غلامی کی زندگی اور منشیات سے پاک سماج کی بنیاد رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور حت الوسع ان تھک محنت و جدو جہد کرتے رہے تاکہ قبائلی فرسودہ نظام سے نکل کر اپنی قوم کو دنیا کے مہذب اقوام کے برابر لا کھڑا کر سکیں. اسی کوشش کو سبوتاژ کرنے والے یا دشمن کی کمک اور مدد کرنے والے کسی بھی بلوچ کو اپنا دشمن تصور کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں نے پہلے تنبیہ کی سامنے سے دور ہٹنے کی تلقین کی اور مجبور ہو کر راستے سے ہٹاتے بھی رہے. مخبروں کو موت کے گھاٹ اتارتے بھی گئے. بلوچستان بھر میں بلوچ مخبروں کو بار بار تنبیہہ کرنے کے باوجود باز نہ آنے والے بلوچ کے دشمن کی مدد کرنے کی پاداش میں اپنے حملے کا نشانہ بناتے بھی رہے.

پچھلے سال زہری بازار کے حدود میں لیویز لائن آفیسر عطاء اللہ اور گذشتہ روز ڈاکٹر حضور بخش رئیس کے بیٹے ریاض پر ہونے والے حملے بھی اسی بلوچ دشمن کارروائیوں کی کڑیاں ہیں. ان حملوں کی وجوہات ہم زہری کے تمام لوگ جانتے ہیں کہ گذشتہ سال ایک بلوچ نوجوان کو انہی لیویز اہلکاروں نے بھرے بازار کے اندر سب لوگوں کے سامنے اغواء کرکے بنا ایف آئی آر درج کیئے اپنے تھانے کے اندر سے دشمن فوج کو بلا کر اس کے ہاتھ تھما دیا، جو آج تک کال کوٹھڑیوں میں انسانیت سوز تشدد کا سامنا کر رہا ہے.

دوسری جانب اگر ہم دیکھیں تو ہم زہری کے لوگ ایک گھرانے کے باتی کے طور پر ایک ہی خاندان کے بچے ہیں. میں، مرحوم ایوب جتک، ڈاکٹر ایوب بلوچ، ڈاکٹر حضور بخش رئیس، عبداللہ آزاد ان کے بھائی عبدالرحمن عطاء اللہ، ڈاکٹر ستار موسیانی، میجر محمد رحیم، چئیرمین عبدالرحمن زہری، سردار صمد محمد خان صاحب، چند ایک ماسٹر صاحبان اور بہت سے تعلیم یافتہ سیاسی ورکرز نے اسی ایک ہی ماحول میں آنکھ کھولی ایک ہی جنریشن میں ایک ساتھ پلے بڑھے. ہم سب لوگ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں، ایک دوسرے کے رگ رگ سے واقف ہیں. کیا ہم اس جدوجہد کو روکنے کی، ناکام کرنے کی سکت رکھتے ہیں؟ پنجابی فوج کا مقابلہ کرنے والے نوجوانوں کے عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں؟ اپنی آخری گولی تک لڑنے والے باشعور بلوچ ورنا کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈاکٹر حضور بخش رئیس کا خاندان و قبیلہ تیار ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.

چند مراعات کی خاطر چئیرمین عبدالرحمان درازئی، میجر محمد رحیم، جو زہری میں موجود ہر بلوچ ورنا کو کان سے پکڑ کر سیدھا خضدار چھاونی لے جاتے ہیں اور دشمن کے سامنے پیش کرکے اپنا جیب خرچی وصول کرتے ہیں، کیا ان کا خاندان اس طویل جنگ کے لیے تیار ہے؟ ہرگز نہیں.

پھر کیوں ان جہد کاروں کو مارنے یا گرفتار کرنے، ان کی مخبری کرنے اور دشمن کے سامنے پیش کرنے کی جتن کرتے ہو؟ وہ نوجوان جو آپ کی آنے والی نسلوں کے لیے اپنا آج قربان کر رہے ہیں. وہ نوجوان جو آپ کے بچوں کے لیے منشیات سے پاک معاشرہ کا خواب بُنتے ہیں. وہ نوجوان جو قبائلی فرسودہ نظام سے چھٹکارہ چاہتے ہیں. وہ جو آپ کے کل کے لیے خود کو فناء کر رہے ہیں. کب تک ان کا مقابلہ کر سکو گے، کب تک ان سے لڑ سکو گے؟

زیب، سکندر، مہر اللہ جیسے ڈکیتوں سے تمہاری جان چھڑانے کے بعد سے لیکر گذشتہ سال بازار سے بلوچ نوجوان کی گرفتاری بعد ازاں گمشدگی تک اِن نوجوانوں نے کسی بھی بلوچ کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ وہ آپ ہی کے لیے تو لڑ رہے ہیں تو پھر کیوں ان کی دشمنی پر آپ لوگ اتر آئے؟ کیوں ان کی توجہ دشمن سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہو. جب وہ تمہیں بغیر نقصان پہنچائے اپنا کام کر رہے ہیں تو پھر کیوں ان کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرتے ہو؟

کل کے آزاد بلوچستان میں آپ کا اتنا ہی حصہ ہوگا، جتنا ہر جہد کار و شھید بلوچ کے بچوں کا ہوگا تو پھر آرام سے بیٹھ کیوں نہیں سکتے؟

بہر حال یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پنجابی دشمن اس جدوجہد کو ختم کرنے کی آخری کوشش کرے گا. چاہے وہ میر نعمت زرکزئی جیسے دلالوں کے ذریعے تمھارے معاشرے کو منشیات سے آلودہ کرے یا میجر جیسے مذہبی شدت پسندوں کے ذریعے یا چاہے علاقائی خیراتی میر معتبروں کے ذریعے اپنی کوششیں تیز کرلے. چاہے نائب مرزا و رحمو جمالزئی جیسے معاشرے کے تھرڈ کلاس لوگوں کے ذریعے لیکن یقین محکم ہے کہ آخر شکست دشمن کی ہی ہوگی، بس صرف آپ لوگ بنگلہ دیش کے جماعت اسلامی والوں کے عبرت ناک انجام کو اپنے دماغ سے کبھی نہ نکالیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔