برمش – چیدگ بلوچ

641

برمش

تحریر: چیدگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں ظالم و مظلوم کا رشتہ چلا آ رہا ہے، جہاں ہر وقت طاقتوروں نے اپنی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور کمزور اقوام پر ظلم و بربریت کو پروان چڑھا کر انسانیت و اخلاقیات کو روندا، چونکہ سامراجیت کا مقصد اکثر اس زمین کے حصے پر قابض ہونا ہے اس لئے وہاں پر بسے انسان ان کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتے، اگر کوئی معنی رکھتا ہے تو بس غلامی کی شرط پر۔

گزشتہ روز ایک خبر سوشل میڈیا پہ گردش کررہی تھی کہ پیر اور منگل کے درمیانی شب کیچ کے مرکزی شہر تربت کے علاقے ڈنک میں ایک گھر پر پاکستانی فوج کے سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ کے مسلح ڈاکوؤں کی ڈکیتی کی کوشش کے دوران مزاحمت پر ایک بلوچ خاتون شہید جبکہ اس کی کمسن بچی برمش زخمی ہوئی ہے۔

بعد ازاں ایک ویڈیو کلپ سامنے گزری، جہاں عوام نے ایک ڈکیت کو پکڑ کر پیٹا ہے، اس کی ایک تصویر میں واضح نظر آرہا ہے جہاں کمرے کے اندر اس کے پاس ہتھیار ہیں، جس میں سے ایک میگزین پر پاکستانی جھنڈے کا رنگ ہے، بعد میں دوسرے ڈاکؤوں کی بھی تصویر سوشل میڈیا پر شائع ہوئیں، جس میں سے ایک کی تصویر کٹھ پتلی ظہور بلیدی کے ساتھ دیکھا گیا، اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیتھ اسکواڈ کی سربراہی ظہور بلیدی اور ان جیسے تمام قبضہ گیر فوج کے زرخوروں کی سرپرستی پہ ہو رہا ہے۔

برمش وہ معصوم بچی جس کی معصومیت کے آگے پہاڑ بھی رحم کا دامن تھامے، مگر یہ ظلم کی انتہا ہے کہ پتھر دل انسانوں کو اس معصوم پہ ترس نہ آیا، ان انسان نما حیوانوں نے اس معصوم کی ہنسی چھین لی، برمش کو اس کی ماں سے جدا کر دیا گیا، یہ ہنسی و مسکراہٹ برمش کا فطری حق ہے، مگر حیوان کیا جانے حق کیا ہوتا ہے، ان ظالموں نے ظلم کی حد کردی، جن کے ہاتھوں معصوم بچے بھی محفوظ نہیں، انسان کی شکل میں یہ حیوان ہیں، جنہیں معصوم برمش سے خوف محسوس ہوا۔

برمش بلوچ قوم کے مستقبل کا روشن باب، برمش خوشبودار پھول، جس کی خوشبو سے پوری کائنات مہکتی ہے، برمش انسانیت کا نور ہے، ایسے پھولوں کو مرجھانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیئے اور ان نام نہاد عوامی نمائندوں جو انسانیت کا لبادہ اوڑھ کر حقیقت میں انسانیت دشمن ہیں انہیں ان کا سزا پورا دیا جائے، اور یہ امید ہم بلوچ سرزمین کے حقیقی فرزند و سپاہیوں (سرمچاروں) سے کرتے ہیں کہ ایسے بلوچ و انسان دشمنوں کو ان کے کئے کا سزا دیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔