اٹھائیس مئی یوم قہر – توارش بلوچ

180

اٹھائیس مئی یوم قہر

تحریر: توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب کسی قوم پہ کسی سامراجی ریاست کا جبراً قبضہ ہوتا ہے تو اس قوم کی کوئی بھی شئے محفوظ نہیں ہوتی۔ قابض دشمن غلام قوم کے استحصال کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ وہ موقع کی تاک میں رہتا ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے تو وہ اس قوم کی شناخت، کلچر، تاریخی مقامات اور جغرافیائی اہمیت کو نقصان دیتا ہے۔ ایک ایسا ہی واقعہ بلوچستان میں اس وقت پیش آیا جب گیارہ مئی 1998کو بھارت نے دوسری مرتبہ کامیاب ایٹمی تجربات کیئے۔ ان تجربات کے جواب میں ریاست پاکستان جسکی معیشت کا دارومدار غیر ملکی فنڈز اور اورسیزپاکستانیوں کی مزدوری ہے نے بوکھلاہٹ میں نیو کلئیر ٹیسٹ بلوچستان کی سرزمین چاغی کے مقام پہ کئے تاکہ اس خطے میں اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کو وسعت دے سکیں۔

پاکستان کی اس غیر انسانی عمل کے بعد عالمی برادری نے رد عمل میں پاکستان پہ اقتصادی پابندیاں عائد کردیں جبکہ جاپان نے پاکستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرکے اپنا سفیر بھی واپس بلالیا لیکن ان پابندیوں کا پاکستان پہ کچھ اثر نہ ہواکیونکہ پاکستان کو اس خطے میں آزادانہ طور پر اپنی دہشتگردی کو پھیلانے کے لئے ایسی طاقت کی ضرورت تھی۔ کیونکہ بھارت اس وقت اس خطے میں سب سے بڑی طاقت تھی۔

پاکستان اس تجربے کے بعد پہلا اسلامی ملک تھا جس نے ایٹمی تجربات کرکے خود کو خطے میں منوانے کی کوشش کی لیکن انسانی آبادی کے قریب ایٹمی تجربے نے انسانی زندگیوں کو شدید خطرات میں مبتلا کردیا۔ آج اس واقعے کو بائیس برس کا عرصہ گذرچکا ہے لیکن اسکے مضر اثرات آج تک برقرار ہیں۔

پاکستان نے جس مقام پر یہ دھماکے کیئے تھے، اسکے کچھ ہی فاصلے پر لوگوں کے دیہات موجود تھے، جہاں لوگوں کی آبادی رہائش پذیر تھی، اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق دنیا میں جب اور جہاں بھی ایٹمی دھماکے ہوں، وہ انسانی آبادی سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں لیکن پاکستان نے جہاں پر ایٹمی دھماکے کیئے وہاں سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر انسانی آبادی رہائش پذیر تھی، جس سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک کے ہاتھوں میں ایٹمی پاور کا ہونا انسانیت اور اس خطے میں انسانوں کیلئے کتنا خطرناک ہے۔ پاکستان نے یہاں کے انسانی جانوں کو خاطر میں لائے بغیر بلوچستان پر ایٹمی تجربات کیئے چونکہ بلوچوں کے مرنے اور انہیں تباہ کارریوں کا شکار بنانے میں پاکستان ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ یہ قصہ سترسالوں سے بدستور جاری و ساری ہے، جس میں کبھی بھی کمی دیکھنے میں نہیں آئی، البتہ وقتاً فوقتاً اس میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

پاکستان نے اپنی ایٹمی تجربات کیلئے بلوچ زمین کا انتخاب کرکے بلوچوں کو یہ باور کرایا کہ پاکستان اپنے ہر جابرعمل کیلئے بلوچستان کا انتخاب کرے گا تاکہ یہاں کے لوگوں کو غلامی کا احساس دیا جا سکے۔ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں اٹھائیس مئی یوم تشکر و یوم تکبیر کے طور پہ منایا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں یہ دن یوم آسروخ کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔

بلوچ عوام نے بلوچ سرزمین پر پاکستانی مزموم عزائم کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ بلوچ عوام بخوبی اس بات کا ادراک رکھتا ہے پاکستان بلوچ زمین پر ایک قابض قوت ہے، جس نے جبراً اپنی فوجی قوت سے بلوچ زمین پر قبضہ کرکے یہاں ڈیرہ جمایا ہے جس کے خلاف بلوچ قوم قومی آزادی کی جدوجہد میں دہائیوں سے برسرپیکار ہے۔

پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی کے ان علاقوں میں صاف پانی بالکل ناپید ہو گئی، جبکہ بلوچستان کے سرسبز پہاڑ راکھ میں بدل گئے۔ یہاں کے سینکڑوں افراد جلد اور پیٹ کے بیماریوں میں مبتلا ہوئے، ایک رپورٹ کے مطابق آج بھی چاغی میں کئی بچے ماں کے پیٹ سے بیمار ہوتے ہیں۔ ان علاقوں میں ایٹمی دھماکوں سے تابکاری کے شدید اثرات مرتب ہوئے۔ چاغی سے ایسے کئی بچوں کی تصویریں اب بھی موجود ہیں جن پر تابکاری کے اثرات واضح ہیں، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان نے کن تیاریوں کے ساتھ ان علاقوں میں ایٹمی دھماکے کیئے تھے۔

بلوچ سرزمین پر ایٹمی تجربات کرنے کا مقصد بلوچ قوم کو ایک واضح پیغام اور خوف و ہراس پھیلانے کی ایک گھناونی سازش تھی کہ اگر بلوچ مستقبل میں قومی آزادی یا پاکستان سے علیحدگی کی بات کریں تو انہیں ایٹمی دھماکوں سے خوف آئے اور وہ اپنے سوچ و فکر سے نکل جائیں لیکن پاکستان کو اس بات کی غلط فہمی تھی کہ بلوچ قوم پاکستان کی ایٹمی دھماکوں کے ڈر سے قومی آزادی کے پروگرام سے دستبردار ہو جائے گا جبکہ عوام نے اپنے سائنسی جدوجہد کا آغاز پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے دو سال بعد شروع کیا، جو ہنوز جاری ہے اورپاکستان کی کمر توڑ دی ہے، جس کے خلاف پاکستان نے ہر طرح کی جبر و بربریت استعمال میں لائی ہے لیکن ابھی تک اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد اپنی منزل کے جانب رواں دواں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔