آؤ بیٹا افطاری کرتے ہیں – شاد بلوچ

178

آؤ بیٹا افطاری کرتے ہیں

افسانہ نگار: شاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

امی، امی، امی… نوید کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ وہ سہماہوا تھا۔ جی بیٹا! کیا ہوا؟ امی! ابو پچھلے رمضان تو ہمارے ساتھ تھے اور کتنی خوشی سے رمضان کے ایام گزرہے تھے، ابو کی بہت یاد آرہی ہے، کئی مہینوں سے ابو ہمارے پاس نہیں آئے۔ رشیدہ آہ بھرنے لگی اور کہنے لگی “بیٹا تمارے ابو ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں۔ تم گھبراؤ نہیں، ابو کچھ دن بعد لوٹ آئینگے۔” اپنی باتوں میں مگن ہوکر رشیدہ پوری طرح ماضی کے دریچوں میں جھانکنے لگتی ہے۔

رشیدہ، رشیدہ جلدی کرو…. آج کہیں جاناہے اور بتایا بھی تھاکہ آج بچوں کے لیئے نئے کپڑے اور جوتے بھی لینے ہیں۔ جی ابھی آئی، رشیدہ پہنچتی ہے ۔ انور کے چہرے پر خوشی اور محبت کا نور دیکھ کر کہتی ہے، واہ جی واہ! آج تو بڑے خوش نظرآرہے ہیں۔ ہاں تو آج مزدوری کے پیسے ملنے ہیں اور آج بچوں کے لیئے کپڑے اور جوتے بھی تو خریدکرلانے ہیں، عید جو قریب آرہی ہے. رشیدہ خوشی سے پھولے نہیں سماتی اور وہ سیدھا انور سے لپٹ جاتی ہے، انور اسکے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہتاہے، رشیدہ دیکھو میری جان، ہم بہت خوش نصیب ہیں جو ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ اللہ نے اتنی اچھی زندگی سے نوازا ہے ، ہم دونوں ہمیشہ اسکے شکرگزار ہونگے۔۔

محبتوں کے اس سنگم میں انور اور رشیدہ اپنےخالق کی شکرگزاری کررہے تھے کہ اچانک دستک ہوئی اور زمینی خداؤں نے گھرکا دروازہ توڑدیا اوراندر داخل ہوگئے۔ چہروں پر کالے نقاب، جسم ہتھیاروں سے لیس، پیروں میں بھاری بھرکم بوٹ اور منہ میں گالم گلوچ، وہ پوچھ رہے ہیں….. انور کہاں ہے؟

رشیدہ خودکو انور کا ڈھال بنا کے کہتی ہے۔ میری لاش سے ہوکر ہی انور کو پہنچو گے تم لوگ۔ انور آگے بڑھتا ہے اور کہتاہے جناب کیا ہوا؟ میں ہی انور ہوں۔

ڈھکے چہروں نے انور کو ساتھ چلنے کو کہا۔ انور نے حیرانگی سے پوچھا۔ جناب میرا جرم کیا ہے؟ ان میں سے ایک آگے بڑھا اور انور کے سینے پر کلاشنکوف تان کر کہنے لگا، تم نے ملک غداروں کے ہاں جاکر انکے گھر کی لپائی کی ہے۔

انور سہمے سہمے “جناب میں ایک مزدور ہوں اور میرا کسی کے ذاتی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، میں تو اپنے گھر اور اپنے بچوں کی کفالت کے لیئے مزدوری کرتاہوں”۔

یہ معصومانہ الفاظ ان نقاب پوشوں میں سے ایک کو پسند نہیں آیا، وہ بندوق کے بٹ سے انور پر حملہ آور ہوا جس کی زد میں آ کے انوراپنا توازن برقرار نہ رکھ پاتے ہوئے زمین پر جاگرا۔ رشیدہ یہ ماجرہ دیکھ نہ سکی اور بے ہوش ہوکر گرگئی۔ اورجب ہوش آیا تو خود کوپسینوں میں شرابور،جسم ڈھیلا، دماغ سن اور ہاتھ کانپتے ہوئے محسوس ہوئے، انور انورکی صدائیں بلند کرتی باہر نکلی، مگر وہاں سوائے اپنی چیخ کے نہ کسی کو دیکھتی ہے، نہ ہی اپنے علاوہ کسی کو سنتی ہے۔۔

نوید کی آواز آتی ہے…. اماں، اماں افطاری میں بس دس منٹ باقی ہیں۔ رشیدہ آنسو پونچھ لیتی ہے اور کہنے لگتی ہے ”چلو آؤ بیٹا افطاری کرتے ہیں۔“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔