کرونا وائرس انسانی جانوں کے ساتھ بہت کچھ بہا لے جائے گا – خالق بلوچ

221

کرونا وائرس انسانی جانوں کے ساتھ بہت کچھ بہا لے جائے گا

تحریر: خالق بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عرصہ دراز سے متعدد دانشور، سول سوسائٹی کے سرگرم اراکین اور صحافی بلوچستان میں خراب طرز حکمرانی کی نشاندہی کرتے آرہے تھے مگر اس اہم ایشو کی جانب نہ سیاسی قیادت نے کوئی خاطر خواہ توجہ دی اور نہ ہی ریاست کے دوسرے اداروں نے طرز حکمرانی کی بہتری کے لیئے کوئی ٹھوس قدم اُٹھایا. کل کوئیٹہ میں ڈاکٹروں پر وحشیانہ لاٹھی چارج اور ان کو گرفتار کرنے کا دلخراش واقعہ رونماء ہوا جس سے نہ صرف ملک میں بلکہ عالمی طور پر بھی بلوچستان میں نظام حکومت کی کینسرزدہ ہوکر بسترمرگ پر ہونے کی ثبوت سامنے آگئی . بلوچستان حکومت کی کرونا وباء سے نپٹنے میں ناکامی کا زکر بعد میں کرتے ہیں، پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ وبائی امراض کی پھوٹنے کے واقعات کیسے سیاست, معیشت اور تاریخ کا رُخ موڑتے ہیں. سال 430 قبل مسیح پیلوپونیشین جنگ کے دوران پھوٹنے والی طاعون کی عالمی وباء نے انسانی تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑ ے اور اس کے بعد سال 483 عیسوی میں مشرقی رومن سلطنت جسے بیزنٹین سلطنت بھی کہا جاتا ہے میں ایک بدترین طاعون کی وباء پھوٹ پڑی جو بہت تباہ کن تھا کیونکہ اس وباء سے تین کروڑ سے پانچ کروڑ کے قریب انسان لقمہ اجل بن گئے اور اس نے مشرقی رومن سلطنت پر اتنے گہرے اثرات چھوڑ ے کہ پھر رومن سلطنت دوبارہ کبھی بھی یکجاء نہیں ہوسکا اور بالآخر یورپ تاریکی میں ڈوب گیا.

پھر طاعون اعظم یعنی Black Death نےسال 1347 میں یورپ میں سر اٹھایا اس وباء سے ڈھائی کروڑ انسان ہلاک ہوگئے اور یورپ کی آبادی میں اس وباء کی وجہ سے جو کمی آئی وہ لگ بھگ دو سو سال بعد پورا ہوگیا لیکن اس وباء کی اہم بات یہ ہے کہ اس سے غلام دارانہ نظام کمزور پڑنے لگی اور سماجی ترقی کے مواقعے غریبوں کو بھی ملنے لگے.

اس کے بعد انسان نے تاریخ کا بد ترین وبائی بحران کا سامنا کیا اور یہ بحران تھا Spanish Flu H1N1 جو 1918-19 میں پھوٹ پڑی اس وباء سے پچاس کروڑ انسان متاثر ہوے اور پانچ کروڑ لوگ پوری دنیا میں جان کی بازی ہار گئے. اس بدترین وباء کے دوران پہلی جنگ عظیم اختتام پذیر ہوگیا اور سلطنت عثمانیہ و جرمنی جیسے عالمی سامراجی طاقتوں کا شیرازہ بکھر گیا.

دنیا میں درجہ بالا وبائی امراض کے علاوہ دیگر متعدد عالمی و علاقائی وبائی بحرانات نے انسان کو مشکلات سے دوچار تو کی, کروڑوں انسان جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے, معیشتوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے لیکن ان تمام عالمی وبائی بحرانات میں ایک بات قدرے مشترک ہے وہ یہ کہ ماضی میں ہر پھوٹنے والی وباء نے انسانی سماج پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کیئے اور بعض وبائی امراض کی ہولناکیوں نے انسانی تاریخ کا رخ موڑ دیا. 1918 اور 1919 کی اس وبائی بحران نے 1930 کی معاشی کساد بازاری, دوسری جنگ عظیم اور بعد میں یورپ کے ممالک میں فلاحی ریاست کا پیش خیمہ ثابت ہوا. اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کوئی بھی وبائی امراض کے عالمی سطح پر پھوٹنے کے انسانی تاریخ پر بہت گہرے اور طویل المدتی اثرات ہوتے ہیں، جس سے غالب معاشی, سیاسی اور ورلڈ آرڈر بکھر سکتے ہیں, سماجی رشتے تبدیل ہوسکتے ہیں, معاشی نظام بدل سکتے ہیں اور رائج نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کر انصاف اور برابری پرمبنی نیے معاشی سماجی رشتے تشکیل دے سکتے ہیں.

حالیہ عالمی کرونا بحران نے بھی بہت سارے حقائق کو عوام پر آشکارا کردی ہے.
جدید تاریخ میں کووڈ-19 سے پہلے بھی کئی دوسرے وبائی امراض دنیا کے مختلف ممالک میں پھوٹتے رہے، جن سے کئی جانی و مالی نقصانات ہوئے. حالیہ کرونا virus جس کو ورلڈ ہیلتھ آرگنانزیشن (WHO) نے عالمی وباء قرار دے دی ہے. اس وبائی مرض نے جہاں حکومتوں کی ممکنہ وبائی بحران سے نمٹنے کی تیاریوں میں عدم دلچسپی کو بے نقاب کیا ہے تو وہاں 1930 کی عالمی مالیاتی کساد بازاری کے بعد پوری دنیا کو ایک نئے معاشی سست روی اور کساد بازاری میں دھکیل دیا ہے. ایک اندازے کے مطابق اس وبائی بحران سے عالمی جی ڈی پی کو 2.4 کھرب ڈالر کا نقصان کا اندیشہ ہے جو ایک بہت بڑی تباہی سے کم نہیں ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس وباء سے عالمی آبادی کا 40 فیصد سے 70 فیصد حصہ متاثر ہوسکتا ہے. سارس (SARS) کی وباء کے خاتمے پر عالمی اداروں اور حکومتوں کو یہ بخوبی معلوم کیا جاچکا تھا کہ سارس ایک نئے انداز میں دوبارہ نمودار ہوسکتا ہے لیکن مغربی و ایشیائی ممالک نے اس امکان کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا اور کسی بھی ویکسین یا علاج پر کام نہیں کی جس کی وجہ سے اب جب یہ وباء نمودار ہوا ہے تو حکومتیں ہر جگہ بحرانی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں.

بلوچستان جیسا صوبہ شروع سے غلط طرز حکمرانی کی وجہ سے متعدد مسائل کا شکار ہے. صحت کی سہولیات کی فراہمی یہاں کبھی بھی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے. یہاں لوگ معمولی بیماریوں سے مرتے ہیں. پورے صوبے میں ایک بھی مناسب ہسپتال نہیں. یہاں کے باشندے اپنی معمولی مرض میں مبتلا مریضوں کو علاج کے لے کراچی یا اندرون سندھ لے جاتے ہیں. صوبے میں دو متوازی ادارے صحت کے معاملات کو چلاتے کے لے بنائے گئے ہیں ایک محکمہ صحت اور دوسرا پیپلز پرائمری ہیلتھ کیر اینی شی ایٹیو (PPHI) ہے. محکمہ صحت Tertiary Healthcare Hospitals, RHC, سول ہسپتال, ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال اور CDs کو چلاتا ہے جبکہ پی پی ایچ آئی بنیادی مراکز صحت یعنی BHUs کے معاملات کو چلاتا ہے.

بلوچستان کے تمام سرکاری صحت کے اداروں میں نہ تو جدید مشینری و آلات دستیاب ہیں, نہ اعلٰی تعلیم یافتہ و تجربہ کار ڈاکٹر, نہ ادویات ہیں اور نہ ہی مناسب صفائی. ہر 7300 افراد کے لے صرف ایک ڈاکٹر ہے. صوبے میں بچوں و حاملہ خواتین کی شرح اموات ملک کے دوسرے تمام صوبوں سے زیادہ ہے. بہت سی بیماریاں پینے کی صاف پانی اور مناسب صحت و صفائی کی کمی کے سبب لاحق ہوتے ہیں. بعض علاقوں میں یرقان کے ہزاروں لوگ صاف پانی کی قلت اور مناسب صحت و صفائی نہ ہونےکی وجہ سے یرقان جیسے موزی مرض میں مبتلاء ہیں. محکمے صحت میں کرپشن, بے ضابطگیاں اور بد عنوانی عام ہے جس کا پول حالیہ ینگ ڈاکٹروں کی تحریک نے بری طرح کھول کے رکھ دی ہے.

پی پی ایچ آئی جیسے ناکام ادارے کو کب کا بند کردینا چاہئے تھا، مگر اس ادارے کو سرکاری خزانے سے اربوں روپے ملنے کے باوجود اس کی کارکردگی نہ ہونیکے برابر ہے. کرونا virus کی پھیلاو اور متعدد ہیلتھ ورکرز کا اس وباء سے متاثر ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں ہیلتھ کا کوئی مناسب نظام سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا. اس لے حکومتی ادارے اور ڈاکٹرز کرونا جیسے بد ترین وبائی بحران کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں اور عوام کو جھوٹی تسلی دی جارہی ہے کہ حکومت ہر ممکن اقدام اٹھا رہی ہے. بلوچستان میں کوءیٹہ سمیت پورے صوبے میں زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں اسی وجہ سے اس وباء میں مبتلا افراد کی صیح تعداد سامنے نہیں آرہی. حکومت کو اس وباء سے نپٹنے کے لے جو اقدامات اُٹھانے چاہئے ان میں زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنی کی سہولت فراہم کرنا, کرونا کے مریضوں کے لے جدید سہولیات پر مشتمل ہر علاقے میں صحت کے مراکز قائم کرنا, ڈاکٹروں و صحت کے دیگر عملے کو حفاظتی کٹس کی فراہمی, صحت کے مراکز میں ہر مریض کے لے الگ وارڈ کا قیام, ہسپتالوں میں تمام ضروری ادویات, مشینری, آلات اور وینٹی لیٹرز کی دستیابی کو یقینی بنانا, صحت کے مراکز میں صحت و صفائی کا خاص خیال رکھنے, ہسپتالوں کو مسلسل ڈس انفیکشن کرنا, مریضوں کی مناسب نگہداشت, کھانے پینے کی فراہمی کے اقدامات کے ساتھ مکمل لاک ڈاون کرکے مستحق و محنت کش طبقے کو بلا تاخیر کھانے پینے و دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے تھا. لیکن نہ جانے کیوں حکومت یہ بنیادی اقدامات اٹھانے کے بجائے پی ڈی ایم اے کو اربوں روپے جاری کررہا ہے جبکہ یہ رقم محکمے صحت و سوشل ویلفیئر کے محکموں کو جاری کیا جانا چاہیۓ تھا. اس عمل سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ حالیہ غیر معمولی بحران کی کیفیت میں بلوچستان میں روایتی گھسا پٹا طرز حکمرانی کو چلا کر سیاسی وزراء اور بیوروکریسی کرونا وباء کو ایک اچھا موقع جان کر پیسے کمانے کی چکر میں لگے ہوئے ہیں جبکہ بلوچستان کا مفلوک الحال عوام ایک طرف کرونا وباء اور دوسری طرف بھوک کی دو بلاوں کی بیچ میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں.

وباء چند ہفتوں یا مہینوں میں بے یارومددگار ہزاروں بلوچستانی غریبوں کو نگل کر ختم ہوجائے گی مگر یہ ممکن ہے کہ اپنے ساتھ جھوٹی سیاست, جعلی جمہوریت, فرسودہ قبائلی نظام, کرپٹ بیوروکریسی, دکھاوے کے سماجی کارکنوں اور دوسرے مداریوں کے کھیل کو بھی لپیٹ کر تاریخ کا رخ اس طرح موڑ دے جیسے ماضی کے بہت سارے وبائی بحرانوں نے موڑ دیا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔