مہامری – برزکوہی

389

مہامری

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

عالمی وباء کرونا وائرس کا پہلا کیس سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں سامنے آیا، یہ وبا کیسے شروع ہوا؟ کس نے شروع کیا؟ کیوں شروع ہوا؟ یہ کوئی قدرت آفت ہے، چمگاڈر یا پینگولین کے جرثومے منتقل ہوئے، ماحولیاتی تبدیلی کا اثر ہے یا پھر خود چین، امریکہ، اسرائیل روس وغیرہ کی آپسی حیاتیاتی جنگ؟ بہرحال مختلف آراء، مفروضے، افواہیں، جھوٹ و سچ کا ماحول گرم ہے۔ وجہ جو بھی ہو لیکن ایک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس وقت پوری انسانیت کے خلاف ایک غیر مسلح و مخفی مگر انتہائی خطرناک جنگ شروع ہوچکا ہے۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں انسان موت کی آغوش میں جاچکے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں متاثر ہورہے ہیں، دوسری طرف طرح طرح کی افواہیں لوگوں میں ذہنی اذیت پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ اس حقیقت سے بالکل انکار نہیں یہ عالمی جنگی کیفیت دنیا کے نقشے، معیشت، طاقت و قوت جھکاؤ سب کچھ تبدیل کردیگا۔

آج عالمی طاقت کے توازن کا جو تصویر ہمارے سامنے ہے، وہ درون خانہ اور بہت حد تک ظاھراً اپنے حرکیات بدل دیگی، اور آنے والے مہینوں میں دنیا مختلف ہوگی۔ طاقت و قوت کے حرکیاتی توازن کا دارومدار دراصل معیشت پر ہوتا ہے، اگر یہ عالمی جنگ دنیا کے موجودہ برقرار معاشی خاکے کا کایہ پلٹ نہیں بھی سکا تو پھر بھی اسکا توازن بگاڑ دیگا، جس سے ایک ہلچل مچے گی۔ صرف چند ہفتوں کے لاک ڈاون سے ہی ایک بڑے معاشی ” پیراڈائیم شفٹ” کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔ جہاں معیشیت پر قابو رکھنے والی تیل اور آٹو آنڈیسٹری کے مالک کھربوں ڈالر کا نقصان کررہے ہیں وہیں ٹیلی کام اور آن لائن و میڈیکل انڈسٹری کی چاندی ہوگئی ہے۔

آگے صورت حال کیا ہوگی، کیسے ہوگی؟ کچھ کہنا قبل ازوقت ہے اور بغیر ٹھوس معلومات و اعداد و شمار کے حتمی رائے قائم کرنا محض مفروضات گھڑنا ہوگا۔ لیکن جب تک اس چھپے دشمن کیخلاف یہ خاموش عالمی جنگ اختیام پذیر نہیں ہوتی، اس وقت تک مختلف نفسیاتی اور ذہنی الجھنوں اور امراض سے کوئی ایک بھی انسان محفوظ نہیں ہوگا۔

پلیگ و انسان کا بہت پرانا رشتہ ہے، تاریخ میں ایسے بہت سی مثالیں ملتی ہیں جب کسی وباء نے دنیا کو اپنے لپیٹ میں لیکر اسکی کایا ایسے پلٹ دی کہ دوبارہ دنیا کو شروع سے آغاز کرنا پڑا اور پھر وہ ماضی جیسا نہیں رہا۔ چھٹی صدی کی جسٹینین پلیگ، بازنطینی شہنشہاہ جسٹین کے دور میں آنے والا گلٹی دار طاعون تھا۔ جس نے تقریباً پانچ کروڑ انسانوں کی جانیں لے لیں۔ یہ تعداد اس وقت دنیا کی آدھی آبادی بنتی تھی۔ جس سے دنیا کا کاروبار مفلوج ہوگیا، بازنطینی سلطنت کا دھڑن تختہ ہوگیا، جس کے بعد کبھی بھی سلطنت روم متحد نا ہوسکا اور یہیں سے یورپ کے ہزار سالہ “سیاہ دور” کا آغاز ہوا۔ یورپ کے اس سیاہ دور نے مشرقی سلطنوں اور علوم کو پھلنے پھولنے اور نئی بام عروج تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا۔

1347 میں بوبونک طاعون دوبارہ چین سے ہوتے ہوئے، ہندوستان پھر یورپ جاپہنچا، جہاں اس نے کالی موت کا نام پاکر تباہی مچادی اور تقریباً ڈھائی کروڑ لوگوں کو موت کی ابدی نیند سلادیا۔ اس سے آبادی اتنی گھٹ گئی کے مزید دو سو سال لگ گئے آبادی کو اسی سطح پر لانے کیلئے۔ لیکن اسکی وجہ سے سماجی تبدیلوں کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوگیا، کیونکہ آبادی کم تھی اور کام کرنے والے کم اسلیئے مزدوروں نے اپنے شرائط رکھنا شروع کردیئے اور یہیں سے غلامانہ نظام کے خاتمے کا آغاز ہوگیا۔ لوگوں نے اتنی موت دیکھ لی کہ سو سال سالوں تک کوئی آپسی لڑائی نہیں ہوئی اور موت کی خوف سے لوگ مذہب کی جانب زیادہ متوجہ ہوگئے۔ اس سے کلیساء مضبوط ہوگئے۔

عام خیال ہے کہ یورپی جب موجودہ مشرقی امریکہ اور لاطینی امریکہ میں 1492 میں داخل ہوئے تو انہوں نے آہستہ آہستہ پوری مقامی آبادیاں جنہیں عام طور پر ریڈ انڈین کہا جاتا ہے قتل کرکے ختم کردیں۔ حقیقت میں مقامی آبادیوں کا مکمل صفایا کرنے کا ذمہ دار چیچک جیسا وبا تھا۔ یورپین چیچک کے وبا سے پہلے سے گذر چکے تھے۔ ان میں قوت مدافعت موجود تھی۔ جب کے ریڈ انڈینز کیلئے یہ ایک بالکل نیا وائرس تھا۔ یورپین یہ بیماری اپنے ساتھ لے آئے۔ تقریباً دو کروڑ ریڈ انڈین چیچک کی وجہ سے مرگئے جو انکی آبادی کا نوے فیصد بنتا تھا۔ اسی وجہ سے بچے ہوئے لوگوں میں مزاحمت کی سکت ہی نا رہی۔ اس وبا نے بھی دنیا کا نقشہ بدل دیا، یہیں سے بنیادی طور پر نئے دنیا اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز ہوگیا۔ کیونکہ جدید سرمایہ داری نظام کو وہ دولت ، زمین اور ریاست دستیاب ہوگئی جہاں وہ اپنے جڑیں گاڑھ سکتا تھا۔

1817 کی ہیضے کی وباء ہو، یا 1918 میں پانچ کروڑ انسانوں کی جانیں لینے والا اسپینش فلو، 1968 میں ایک ملین لوگوں کو ہڑپ کرنے والا ہانگ کانگ فلو ہو یا ایچ آئی وی ایڈز جس نے تمام سماجی رویوں کو بدل ڈالا، سارس ہو، مارس ہو، ایبولا ہو، زیکا ہو سب کے انتہائی دور رس اثرات رہے ہیں۔ کرونا ہمارے دور کا سب سے تیزی سے پھیلتا مہلک وبا ہے، اسکے پھر اثرات لازماً انتہائی دیرپا اور سماج کے بنیادوں کو ہلادینے والی ہونگی۔

ہر تبدیلی اپنے ساتھ خیر اور شَر ، تباہی و آبادی، تخلیق اور تخریب دونوں پہلو لاتا ہے۔ یہ پھر اس شخص یا اس قوم پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور کے ان بڑی تبدیلیوں کی پرکھ رکھتے ہوئے انہیں اپنے حق میں استعمال کرکے انہیں خیر، آبادی اور تخلیق بنادیتا ہے یا پھر سیلاب کے بہاو میں تنکے کی طرح خود کو بے سہارہ چھوڑ کر وقت کے رحم و کرم پر ہوجاتا ہے پھر ایسے ہی لوگ اور قومیں ان بڑی سماجی اور عالمی تبدیلیوں سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں، وہی پھر ان سے تباہ ہوجاتے ہیں۔ جن میں حکمت ہوتی ہے وہ اسی طرح اسکا استعمال کرتے ہیں جسطرح تیرہیوں صدی میں افرادی قوت کی کمی کی صورت میں غلاموں نے استعمال کیا تھا۔

جہاں کرونا کے دور رس سماجی و عالمی اثرات ہونگے وہیں، اسکے نفسیاتی اثرات سے بچنا بھی آسان نہیں۔ گھروں میں ایک ان دیکھے دشمن کے خوف سے محصور رہنا، پھر مرضی کے برخلاف روزانہ ایک ہی معمول کو دہرانا، پھر بھی ہر وقت بیماری و موت کا خوف سرپر سوار ہو، اس پر طرہ معاشی بدحالی و مشکلات اور ہر گذرتا دن آپکو معاشی طور پر مزید کمزور کرتا رہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اقوام اور ریاستوں میں شاید یہ تمام تر معمول زندگی سے برخلاف عوامل کچھ حدتک کم اپنے ذہنی و نفسیاتی اثرات مرتب کریں کیونکہ وہاں معاشی و صحت کے حوالے سے ریاست کے کردار کو لیکر ایک احساسِ تحفظ موجود ہے، لیکن ہمارے جیسے پسماندہ، ناخواندہ، غلامانہ سماج میں اسکے بہت گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہونگے اور جس سماج میں ہم رہتے ہیں، جس طرح بے یارومدگار ہم ہیں، وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ ہم پہلے سے ایک جنگ زدہ، سماجی و سیاسی علم و شعور کے فقدان کا شکار، معاشی بدحالی و درپدری سے مفلوک الحال، ظلم و جبر کی فضاوں میں زندگی بسر کرنے والے، غلامی کی زنجیروں میں مقید اپنے پیاروں کی جدائی میں درد و غم سے چکناچور زندگی گذار رہے ہیں۔ اس صورت حالت میں کرونا جیسا وباء بھی اگر ہم پر نازل ہو تو پھر ہماری قوم ایسی مصائب میں گھِرجائے گا، جسکی پہلے نظیر نہیں ملتی۔

یہاں تو لاشیں گرنے اور لاشیں اٹھانے کرونا سے قبل بھی جاری تھا، ان چند دنوں میں ابھی تک کرونا وباء نے اتنے بلوچ ہڑپ نہیں کیئے، جتنا پاکستان ان چند دنوں میں ہی بلوچ نوجوانوں کو نگل چکا ہے۔ ابھی بلوچ بچائے بھی اپنے آپ کو کس سے بچائے؟

کرونا سے بچنے کیلئے ایک جگہ 14 دن محصور ہونے کا کہا جاتا ہے، مگر یہ کالے کرونا پنجاب سے بچنے کا کوئی مقررہ وقت بھی نہیں ہے۔ اب اصل اور ظاہری دشمن قبل از کرونا تھی بعد ازکرونا بھی ہمارے لیے وہی ہوگا۔ آج اگر بلوچ کے پاس اپنا اقتدار و اختیار، آزاد و خودمختار ریاست ہوتی تو اس حالت میں کم از کم کوئی پاکستانی ایجنٹ وزیر و گزیر، میر و سردار کے ہاتھوں ایک تھیلہ آٹا، ایک عدد لائف بوائے صابن و ڈیٹول کے انتظار میں نہیں ہوتے، آج ہمارے لوگ موت سے زیادہ پریشان ہیں۔ اگر کوئی کروناء سے مرگیا، کفن خریدنے کا پیسہ نہیں ہے کیونکہ اب کفن کا کپڑا بھی مہنگا ہوگیا ہے۔ جس کے پاس اپنے 4 مہینے کے بچے کو دودھ پلانے کے پیسے نہیں ہوں تو اس کے پاس کفن کے پیسے کہاں سے ہونگے؟ ہوٹل بند، دوکان بند، روڈ بند، مزدوری بند، بھیک مانگنے تک کے لیئے بندے نہیں ملتے تو کرونا بگاڑے گا ہمارا کیا، ہم تو ویسے وقت سے پہلے مررہے ہیں، اس وقت تک جب ہمارے واک و اختیار ہمارے ہاتھ میں نہ ہوں۔

جب آپ کے ہاتھ میں کچھ نا ہو تو چاغی کے پہاڑوں میں ایٹم بم اور اٹیمی تجربہ ہوگا لیکن ہسپتال و اسکول اور فلاحی سینٹر آپکے قسمت میں نہیں ہوگا۔ سیندک سے روزانہ لاکھوں ٹن سونا نکل کر پنجاب و چین تک پہچ جاتے ہیں، مگر اسی علاقے میں ایک اسکول و ہسپتال بھی نہیں، اپنی قبضہ گیریت و حاکمیت اور مزید لوٹ کھسوٹ کی خاطر سی پیک روڈ بنائے جارہے ہیں، مگر یہاں ہسپتال دور کی بات ہے ایک پونسٹان کی گولی آپ کو نہیں ملے گی۔ یہ کسی سے گلہ و شکایت، مطالبہ و توقع نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری ریاست نہیں اور اپنے ریاست کے بغیر ہم کسی قابض سے انکی توقع بھی نہیں رکھ سکتے۔

اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگیوں کو صرف زندگی گذارنے اور موت سے بچنے کی کوششوں تک محدود کرنے کی نہیں بلکہ اس کو ایک نظریہ و فکر اور مقصد کی ساتھ وابسطہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ جب مضبوط نظریہ و فکر اور اہم مقصد ساتھ ہوگا تو حالت جو بھی ہو، جیسا بھی ہو، سہنے کی سکت و ہمت ہمیشہ ہمیشہ انسان میں موجود ہوتا ہے، پھر اس حد تک ذہنی و نفسیاتی حملے ذہنوں پر اثر انداز نہیں ہونگے، جس طرح بے فکری و بے مقصد زندگی میں پائے جاتے ہیں۔

جب بھی کمزور فکر، کمزور مقصد اور مقصد سے عدم اطمینانی و تذبذب ہوگی، بے عملی و عدم تحرک کی موجودگی ہوگی تو نفسیاتی امراض اینگزایٹی و ذہنی تناؤ دباوکا انسان شکار ہوگا۔ اگر اس خطرناک وباء کی گردش و چرچے میں کوئی بھی موت کی خوف سے آسان زندگی کی خواہش میں اپنی قومی جنگ سے بیگانہ و لاعلم اور لاتعلق رہا، تو ان سے زیادہ ان پر اس وباء کے نفسیاتی اثرات مرتب ہونگے جو اس وقت ایک فکر، ایک مقصد، سب سے بڑھ کر ایک قومی عمل کے ساتھ محو سفر ہیں۔

گوکہ دنیا میں یہ پہلا عالمی وباء نہیں، اس سے پہلے اس سے خطرناک وباء دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے چکے ہیں، ایسے بھی حالات پیدا ہوئے ہیں کہ لوگوں کو دفنانے تک کیلئے بھی بندے نہیں ملتے تھے۔ آج بھی پوری دنیا اسی قسم کے وباء سے گذررہا ہے، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جو زندہ ہیں یا بعد میں زندہ بچینگے ان کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی؟ وہ کس حالت میں ہونگے؟ خیر ترقی یافتہ قومیں اور ریاستیں اس حوالے سے سوچینگے اور بہتر سمجھینگے اور بہتر سے بہتر اپنے لوگوں کو، اپنے سماج کو، اپنے شعور کی سطح کے مطابق کونسلنگ کرتے رہینگے۔ علم و ادب و فن، سپورٹس و سیمنیار و لیکچرز و تھیٹر، لٹریچر وغیرہ سے وہ ان نفسیاتی اثرات کا تدارک کرینگے۔ لیکن ہمارا سماج اس حالت سے گذرنے کے بعد کس حالت میں ہوگا؟ اس حوالے سے ہمارے سماج کے باشعور و باعلم طبقات کی کیا ذمہ داری بنتی ہے، وہ کیسے اور کس طرح اپنے سماج میں علم و شعور کو پروان چھڑائیں گے؟ کیونکہ ہمارے غیرمہذب و انسانیت سے عاری دشمن اور خاص طور پر ان کے لے پالک و چاپلوس وزیر، ایم این اے، ایم پی اے، میر و سردار، نواب سب کے سب اس حالت میں بھی سماج کو بھکاری بنا کر اور زیادہ تکلیف اور اذیت سے دوچار کردینگے۔ ان کی خوداری اور عزت نفس کو مجروح کریں گے۔

ایسے لوگوں کو قوم و سرزمین سے کوئی وابستگی نہیں ہوتی، تمام تر وابستگی ان کی اپنی ہی ذات اور خاندان سے ہوتی ہے، قوم نفسیاتی مریض جائے یا ذہنی مفلوج ہوں، بھکاری بن جائیں، یا کرپٹ ، چور و ڈاکو ہوں، منشیات کا شکار ہوں انہیں کوئی پرواہ نہیں کیونکہ وہ اس دشمن کے آشیرباد اور ٹکڑوں پر پل رہے ہیں، جو ہمارے قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی برسوں سے عزائم رکھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہیں۔

اگر باقی دنیا کے حالات، اپنے معروضی حقیقت اور تاریخی واقعات کی مثال کو دیکھ کر ایک جانچ کرکے ذرا مستقبل کی پیشن گوئی کرنے کی کوشش کریں کہ یہ وباء قابو سے نکل جاتا ہے تو کیا ہوگا؟ سب سے پہلے پاکستان اپنے پورے وسائل اور کوشش پنجاب اور اہل پنجاب کو بچانے میں لگائے گا۔ بلوچستان میں کچھ بھی روک تھام نہیں ہوگا، لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح مریں گے۔ قلت خوراک اور بھوک اتنا بڑھ جائے گا کہ لوگ ایک دوسرے کو لوٹنا شروع کریں گے، جرائم کا ریٹ آسمان کو چھوئے گا۔ کسی کی جان و عزت محفوظ نہیں ہوگی۔ ان حالات کا بہانہ بناکر فوج ہر گلی کوچے میں اتار کر مزید لوگوں کو مارا جائے گا۔ دوسری طرف یہ کوشش ہوگی کہ یہ وباء جتنا پھیل سکتا ہے پھیلے، جس طرح چیچک نے ریڈ انڈینز کا صفایا کیا تھا اسی طرح یہ بلوچ مزاحمت کا صفایا کردے۔ قابض اور مقبوضہ اور حاکم و محکوم کے جس تعلق کو اسلامی بھائی چارے کے جس جعلی چادر کے نیچے چھپایا جارہا ہے وہ ننگا ہوکر سامنے آجائیگا، لیکن آپکو اس حد تک کمزور کردیا جائیگا کہ پھر آپ میں سکت ہی نہیں رہے گی کہ آپ مزاحمت کرسکو۔

اس لیئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ آج ہی اس تعلق کی پہچان کرکے بلوچستان میں پھیلے ہوئے اصل وباء “غلامی” کا تدارک کی جائے۔ اور اس سے بچنے اور تدارک کی اتنی ہی کوشش کی جائے، جس طرح ہم روزانہ ایک وائرس سے دس بار ہاتھ دھو کر تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرکے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح اپنی انفرادی جان کو اس کرونا سے بچانا لازمی ہے، اسی طرح اپنی قومی زندگی کا بھی تحفظ ضروری ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔