ساجدی صاحب معاف کیجئے گا مگر – اقبال بلوچ

473

ساجدی صاحب معاف کیجئے گا مگر

تحریر: اقبال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی ہندی فلم کا ڈائیلاگ ہے کہ شاعر حضرات بس بنے ہی اسی لیے ہیں کہ ایک دوسرے کو داد دیتے پھریں۔ یہ دوسروں کو داد دے کر اپنے لیے بھی داد سمیٹ لیتے ہیں۔ اسے عملی طور پر بھی بارہا دیکھ اور محسوس کرچکا ہوں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شاعری کا معیار دن بہ دن گرتا جارہا ہے۔ یقیناً بنا سمجھے واہ واہ کرنا شاعر کی توہین کے مترداف ہے۔ یہ واہ واہ پطرس بخاری کے کتے مضمون کی بو بو تو ہوسکتی ہے تاہم یہ تخلیق کیلئے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے۔ ہمارے ادیب و لکھاری بھی کچھ اسی طرح ہی کے واقع ہوئے ہیں۔ اب اپنے انور ساجدی صاحب کو ہی دیکھ لیں۔ منظور بلوچ نے پتا نہیں کیا سوچ کر ان سے ایک تحریر میں جیتے جی معافی مانگ لی، ساجدی صاحب کی تحریروں کی لائن ہی لگ گئی۔ کسی بھی موضوع پر انکا لکھا دیکھ لیں۔ آپکو مرحوم ہفتہ وار ضرب مومن کے مغفور یاسر محمد خان یاد آنے لگتے ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ ان کے کرونا وائرس کے حوالے سے مضامین بڑے شدومد سے پڑھے جارہے ہیں۔ ساجدی صاحب نے ایک مضمون میں پاکستان میں کرونا کے کیسوں کی تعداد 12000 تک گنوائے تو بندہ ڈر کر قرنطینہ ہی ہوگیا۔ تب سے اب تک خدا گواہ ہے بلا کسی شدید ضرورت کے باہر نہیں گیا۔ اور اب رہی سہی کسر ان کے آج کے مضمون نے پوری کردی۔ جس میں عبداللہ حسین ہارون کے حالیہ وڈیو پیغام کو لےکر قبلہ پورے ایمان و وثوق سے کرونا وائرس کی ذمہ داری امریکہ بہادر پر ڈال گئے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کل کا لونڈا سورج کو آئینہ کیوں دکھا رہا ہے؟ آپ یہ سوچنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ انور ساجدی جیسے قدآور شخصیت پر نقطہ چینی کرکے بندہ سستی شہرت کمارہا ہے۔ آپکو یہ حق بھی حاصل ہے کہ انکے صحافتی خدمات کے عوض انہیں خراج کی بجائے ان پر بے جا تنقید کی مذمت کریں۔

مگر ٹہریے! اپنی شناخت کروانے کیلئے نہیں بلکہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ذرا کچھ نکات پر غور کرتے ہیں۔ میرے خیال سے قاری کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔

پہلی بات یہ کہ انور ساجدی صاحب جیسے سینیئر صحافی، مدیر اور ترقی پسند لکھاریوں سے ان کے قارئین کے زیادہ نہیں تو کچھ توقعات تو ہوتی ہیں۔ یقینا ساجدی صاحب کے صحافتی کردار سے انکار ممکن نہیں اور صوبے میں شعبہ صحافت کی آزادی کیلیے انکی خدمات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ مگر ان سے اور ان جیسے زیرک اور مطالعے کے دل دادہ لکھاریوں سے یہ امید رکھی جاتی ہے کہ وہ صحافتی ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے۔ خاص طور پر کرونا جیسے وبائی صورتحال میں ایک لکھاری کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مستند، بے لاگ، اور غیر جانبدار اور مصدقہ معلومات اپنے قاری تک پہنچائے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا قائدانہ کردار ادا کرے۔ ایسی صورتحال میں محض سنسنی اور افواہیں پھیلانے سے عوام کا بچا کچھا مورال بھی ختم ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ سنسنی اور افوہوں کے عادی بن جاتے ہیں، جن سے بہت پیچیدہ نفسیاتی عارضے جنم لینے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔

ساجدی صاحب کے مضمون کا بڑا حصہ تو ملکی سیاست اور اقتدار کے ایوانوں کے قصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جاتے جاتے وہ بلوچستان کا حق کالم کی دم میں ادا کیے جاتے ہیں۔ سو یہ ون ون سچوئیشن ہوتی ہے۔ نہ بچے سانپ اور نہ ہی ٹوٹے لاٹھی۔

کرونا کے حوالے سے میں نے انکے مضمون میں 12000 ہزار کیسوں والا نقطہ یہ سوچ کر اگنور کیا کہ بشر ہیں ہوجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے ایک صفر غلطی سے کمپوزنگ میں لگ گئی ہوگی۔ یوں بھی بلوچستان کے اخبارات میں ایسی بڑی چھوٹی غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں۔ دل کو مگر قرار نہیں آیا۔ آخر وہ روزنامہ انتخاب کے ایڈیٹر و مالک بھی ہیں۔ انکے مضمون میں ایسی غلطی کیسے ہوسکتا ہے؟ سوچا تھا کسی دن کہیں سے معلوم کرلیں گے یا انکے کسی آنے والے تحریر میں اسکا پتہ لگ ہی جائے گا۔ اسی کشمکش میں شب وروز گذرتے گئے، ایک آدھی ادھوری تحریر بھی لکھ ڈالا کہ شاید جواب ہی مل جائے مگر مارے بزدلی کے چھپوا نہیں سکا۔

قصہ مختصر انکا آج کا مضمون “آقاوں میں انتخاب” پڑھا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ جی ہاں وہی جاوید چوہدری، ضرب مومن اور یاسر محمد خان یاد آگئے اور سنہ 2001 والے خوفناک مناظر یاد آنے لگے۔ وہی صہیونی یہود و ہنود کے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے خلاف سازشیں وغیرہ وغیرہ۔ مضمون کا کرسٹ مگر دلچسپ تھا۔

معاملہ یہ ہے کہ عبداللہ حسین ہارون کی جس وڈیو پیغام کو آگے بڑھا کر ساجدی صاحب کرونا وائرس کو امریکہ و یورپ کا سازش اور بائیو ویپن قرار دے رہے ہیں۔ لمحہ موجود میں سب سے زیادہ متاثر امریکہ اور اٹلی ہیں۔ ایک یہود و ہنود کا گڑھ اور اکا سپر پاور تو دوسرا 74.4 فیصد کیتھولک عیسائیوں کا ملک۔

عبداللہ حسین ہارون جو انگریزی روزنامہ ڈان اور ہیرالڈ گروپ آف پبلی کیشنز کے مالک ہیں۔ وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب/سفیر اور پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ انکے ایسے دعووں کا تک بھی بنتا ہے کہ سی پیک کی کامیابی کیلیے کچھ نہ کچھ تو الزام تراشی کی جائے۔ اور ویسے بھی ایک سفیر اور سابق وزیر خارجہ سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ اور وہ اپنا سٹریٹیجک ڈپیتھ والا معاملہ بھی تو ہے نا۔ مگر اپنے ساجدی صاحب نہ جانے عبداللہ حسین کی یاری میں کیا کچھ کہہ گئے۔ پورا نیا ورلڈ آرڈر ہی دے ڈالے۔

ساجدی صاحب یہ سوچ رہے ہوں گے کہ امریکہ اور اٹلی میں تو یہ وائرس غیر ارادی طور پر پہنچا تو عرض یہ ہے کہ بالفرض محال یہ امریکہ اور وہاں موجود یہودی لابی کا کیا دھرا ہے، اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ یہ بل اینڈ ملنڈا گیٹس کی فنڈنگ سے شروع ہوا تھا۔ پھر بھی ایک بات ہضم نہیں ہوتی کہ آخر اتنا بڑا منصوبہ بنانے والوں نے اپنے شہریوں کیلئے کوئی پلان بی تو رکھا ہوگا یا پھر ہمارے جیسے اللہ کے آسرے پر بس جنگ چھیڑ دی گئی۔

جاتے جاتے ایک قصہ! کہتے ہیں ایک موالی فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کا قصہ سنا رہا تھا جب قصہ دریائے نیل پر پہنچا تو موالی نے کہا کہ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے لشکر کو دریا میں اترتے دیکھ کر اپنی جیپ انکے پیچھے دوڑا دی۔ ساتھ بیٹے نسبتاً بیدار موالی نے پوچھا اس وقت جیپ کہاں ہوتے تھے یار؟ تو وہ بیدار ہوکر بولا کوئی خدائی کا دعویٰ کرتا ہے تو کم از کم اسکے پاس ایک جیپ تو ہوگی نا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔