ہردورمیں مزدورانمول ہے – ندیم گرگناڑی

168

ہردورمیں مزدورانمول ہے

تحریر: ندیم گرگناڑی

دی بلوچستان پوسٹ

ہائے مزدور تیری غربت کی غضب کہانی، اگرتیرے غربت پرلکھنے بیٹھوں تو ہزاروں صفحے لکھوں پھربھی تیری غربت کہانی پوری نا ہوگی۔ ٓ ہائے مزدور تیری غربت کی چیخیں جب سنتاہوں تو میری راتوں کی نیندیں اڑجاتی ہیں، ائے میرے غریب غربت کے چکی میں پسنے والے مزدورتیری غربت کے پسینے کی خوشبو سے آج میرے بھوتاروں کے محلات کھڑے ہنس رہے ہیں اورتیرے بلبلاتے بچے تیرے گلے میں بانہیں ڈال کر پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے آہ زاری کریں تو تم کس طرح سکون میں زندگی گذاروگے۔

ائے میرے ملک کو چلانے والے مزدوروں، صبح سے شام تک کسی امیر کے انتظار میں دوردورتک دیکھنے کی آس لیئے پھربھی تیری دیہاڑی کی امیدپوری نا ہوں، تو سوائے کمرجھکاکرگھرتک تیرے پاوں کس طرح جائینگے۔ ائے مزدور یہ محلات، یہ مکان، یہ ملیں، یہ فیکٹریاں، یہ مارکیٹیں، یہ شاپنگ مالز، تیرے ہی دم سے زندہ ہیں۔آج تو ایک زندہ لاش بن کر کس کے انتظارمیں ہوکہ کوئ مجھے مزدور رکھکر صرف بچوں کے لئے شام کی روٹی دیدے۔

ائے محنت کش مزدور تیرے ہی ووٹ کے صدقےآج مسند اقتدار یا مسند حزب اختلاف کے کرسی پربیٹھنے والے تجھے بھول بیٹھے ہیں کہ مبادا یہ وبائی بیماری کی وائرس تیرے بدبودارجسم سے اٹھ کران کے جسم پرچپک نہ جائے۔ ائے مزدور میں دردسے بھری الفاظ کوتیرے ماتم کدہ آنکھوں میں نچوڑدوں یا اپنے قلم کی زبان کوزنجیروں سے باندھ دوں ۔ان الفاظ کی چیخ سے زمین آسمان ہل رہی ہے، ایک دن ایسا ضرورآئیگا کہ تیرے پسیینے کی خوشبو سے ان کے محلوں کی درو دروازے ہل جائینگے۔

بات برسرے مقصد جس دن سے یہ وبائی بیماری کرونا وائرس چائنا سے ہوتے ہوئے بیشترممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد ایران کے راستے شیعہ زائرین کے دامن میں چھپ کرہم پرحملہ آورہواہے، ہماری رات کی نیندیں حرام اوردن کے سکون کوغارت کردیاہے۔ ہم پرپہلے سے کئی زمینی آفتیں نازل ہیں، اب ہمیں عادت ساہواہے لاشیں اٹھاتے ہوئے۔ اب اس وبائی مرض کو لاک ڈاون کا نام دیکر سارے ملک کو مکمل طورپر بندکرنے کا باضابطہ اعلان کیاہے کیونکہ اس وبائی مرض کرونا وائرس کے لئے ابتک کوئی دوائی ایجاد نہیں ہواہے، ہم مسلمان ہاتھ اٹھائے بارگاہ خداوندی سے دعاگوہیں کہ اللہ کافروں کوہمت دے کہ وہ جلدازجلد کروناوائرس کی دوا ایجاد کریں تاکہ اس بیماری پرقابوپایاجاسکے۔

اس لاک ڈاون میں غریب دیہاڑی دارمزدورطبقہ صبح سویرے بازاروں کے چوک چوراہوں پرجمع ہوکراس انتظارمیں بیٹھتے ہیں کہ کوئی ساہوکار آئے اورانہیں کام پرلے جائے تاکہ شام کو بچوں کے پیٹ کا مسئلہ حل ہو۔ اب اس صورتحال میں یہ مزدورطبقہ جائے توکہاں جائے۔ جواپنا دیہاڑی لیکر دوتین کلوآٹا کلوچینی چائے پتی صابن وغیرہ لیکراپناگزارہ کرتے۔ اب ان کا کیا بنے گا یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ مرکزی حکومت نے غریبوں کے لئے جوامدادکا اعلان کیاہے وہ امداد مزدورتک پہنچتے پہنچتے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابربھی نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ اس امداد سے اصل حقدارکوکچھ بھی ملنے والانہیں ہے کیونکہ یہ ماضی کا مشاہدہ ہے۔ دعوے بہت ہونگے مگرحاصل کچھ نہ ہوگا۔

حکومتی امداداپنی جگہ لیکن حیرانگی اس بات کی ہے کہ ہمارے صوبے کے حکومتی وزرا اورحزب اختلاف دونوں خواب خرگوش میں ہیں، جام حکومت اللہ خیرسلا۔ ایم این اے ایم پی اے جوحزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی اس انتظارمیں ہیں کہ مرکزی حکومت صوبائی حکومت کو کچھ امداد فراہم کرینگے تو پھرہم اپنے حلقوں کے غریب غرباء کے لئے کچھ نہ کچھ حاصل کرلینگے۔ یعنی مہ مرمیش کہ بہار کئت۔ کے مصداق اس انتظارمیں ہیں اوریہاں غریب مزدورکے بچے بھوک سے مرینگے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ایم این ایزاورایم پی ایز کے پاس پانچ لاکھ دس لاکھ کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ پندرہ بیس لاکھ کی راشن لیکر ان غریب اورمزدوروں کو دیدیں۔ یہی لوگ الیکشن کے دوران کروڑوں روپے ووٹ کے لئے پانی کی طرح بہاتے ہیں لیکن اس مشکل وقت میں کسی غریب کی مدد کے لئے آنکھیں موندلیتے ہیں۔

اللہ تعالی’ اپنے پیارے کتاب قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ کوئی قوم جب تک اپنی حالت خودنہیں بدلتا تو اس کی حالت نہیں بدلی جاتی۔ غریب طبقے کوکب ہوش آئگی ۔ کب شعورکی سیڑھیاں چڑھیگی۔ کیا یونہی نسل درنسل جہالت غلامی کی زندگی گذاریگی؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔