کورونا اور ہم – سفر خان بلوچ

358

کورونا اور ہم 

تحریر :سفرخان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کورونا وائرس نے اس وقت دنیا میں تباہی مچائی ہوئی ہے، اس وقت دنیا میں شاید کوئی ایسا شخص ہو جو کورونا کی وجہ سے پریشان  نہیں ہے، بچوں سے لے کر بڑے، اسکول سے لے کر مساجد، گھر سے لے کر کھیلوں کے میدان تک، زندگی کے ہر شبعے سے تعلق رکھنے والے سے یہی سننے کو ملتا ہے کورونا کہاں تک پہنچ چکا ہے اور فلاں فلاں جگہ اتنے اموات ہوئے ہیں۔

چین میں تباہی مچانے کے بعد کورونا اس وقت ایران اور اٹلی میں تباہی مچا رہا ہے اور یورپ کو اپنا مرکز بنایا ہوا ہے ، چین کے بعد ایران میں تیزی کے ساتھ پھیل رہا، اگرچہ چین میں کورونا سے نامی گرامی سیاست دان یا  حکومتی عہدیدار اس وائرس سے محفوظ رہیں لیکن ایران  پہنچتے ہی  وزیر صحت کو اپنے آغوش میں لے لیا اور ثابت کردیا ہے کہ صحت کے رکھوالے مجھ سے محفوظ ہی نہیں پھر عام عوام کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔

اس وقت دنیا کے 121ملکوں کو کورونا نے اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے ،عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیا ہے ،عالمی ادارے کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک لاکھ اٹھارہ ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئیں ہیں،کورونا کے باعث دنیا میں اس وقت کئی کمپنیوں کو مالی خسارے کا سامنا ہے، کاروباری بازار ماند پڑ گئے ہیں،  سیاحتی مقام  ویران ہیں، ، اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ کورونا کی وجہ سے اس وقت دنیا میں کرفیو کا سماں ہے تو  غلط نہیں ہوگا۔

اس وقت کورونا کو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، مذہبی نقطہ نظر کے مطابق اللہ کا عذاب ہے، سائنسی نقطہ نظر کے مطابق ایک بائیولوجیکل عالمی جنگ ہے، جو بھی ہے کورونا نے پوری دنیا کوانتہا کی حد پریشان  کیا ہوا ہے شاید دو عالمی جنگوں کو بھی اس طرح کی شہرت نصیب نہیں ہوئی ہے جو اس وقت کورونا کے حصے میں آیا ہوا ہے، مذہبی پیشواؤں اور سائنس دانوں سے لے سب بے بس ہیں۔ٹوٹکے بازوں سے لے کر سب پیر فقیر زور آزمائی کر رہے ہیں مگر کچھ بھی فائدہ نہیں ، یروشلم میں حضرت عیٰسی کا جنم گاہ بند، یہودیوں کی گریہ دیوار کی بندش، مسلمانوں کا خانہ کعبہ اور مسجد نبوی بھی نماز کے علاوہ بند ،  اس وقت دنیا میں اگر کسی سے امید وابسطہ ہیں  تو وہ لیبارٹری ہیں جو دن رات ایک کرکے اس وائرس کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ویسے میں ایک بات ضرورشامل کرونگا اگر دنیا میں یہ اب آیا ہے، ہمارے یہاں ساٹھ سال پہلے آیا تھا سن60 19کو بلوچستان کے  شہر پنجگور میں ایک بیماری پھیل گئی تھی جسے آج بھی ہمارے یہاں وبا کا سال کہا جاتا ہے وبا ٹھیک اسی طرح پھیلتا گیا وبا ہیضہ تھا ایک شہر سے دوسرے شہر تک پھیل گیا، ایک ماہ کے دورانیے میں صرف پنجگور کے علاقے بونستان میں تین ہزار لوگ جان کی بازی ہار گئے جن میں بچے بوڑھے اور وعورتیں شامل تھیں، ہمارے بزرگ بتا تے ہیں اس وقت لوگ اپنے سب کام چھوڑ کر ایک تو میتوں کو ٹھکانے لگا رہے تھے اور اپنے باری کی انتظار کر رہے تھے ایسا بھی ہوا تھا کہ لوگ دوسروں کی جنازہ پڑ رہے تھے توٹھیک چند لمحے بعد اسی کی جنازہ پڑھایا گیا ،پنجگور میں کفن بھی نایاب ہوگیااورلوگوں کو بغیر کفن کے دفنا یا گیا۔

ان تمام چیزوں کے باوجود میں اس بات سے متفق ہوں کہ کورونا کے معاملے میں ہم بلاوجہ بیگانوں کی شادی میں عبداللہ بنے ہوئیں ہیں، اگرچہ دنیا میں کورونا کی وجہ سے چند  ماہ میں پانچ  ہزار سے زائد لوگ مر گئے ہیں مگر ہم کیوں پریشان ہیں ؟ بلوچستان کے شاہراہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہیں، بلوچستان میں کینسر جیسی موذی مرض نے پہلے سے اپنے پنجے گاڈ دیئے ہیں ،ہم سوتے جاگتے موت کے ہمراہ ہیں،  پھر ہم ڈر کیوں رہے ہیں ،اس سڑک یا کینسر یا مملکت خداداد کے ہاتھوں موت نہیں کورونا ہی سہی موت تو موت پھر ہم ڈریں کیوں۔

کورونا نے چند ہی ماہ میں پوری دنیا میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو اپنے لپیٹ میں لیا ہے ہماری آبادی بھی اتنی ہی نہیں کورونا کتنوں کو مارے گا ہمارے یہاں پہلے سے ہر سال آٹھ ہزار لوگ روڑ حادثات،تین ہزار سے زائد لوگ ہرسال منشیات کے استعمال اور آٹھ دس ہزار کے قریب لوگ سرطان و ہیپا ٹائیٹس، جیسی مرض کا شکار ہوکر مر رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو پاکستانی فوج اپنے بربریت کا نشانہ بناتا ہے جن کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں زندہ ہیں یا مر گئے ہیں ان ہی میں سے اگر پانچ سو یا چھ سو لوگوں کو کورونا اپنے نام کرتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔