کوئٹہ میں عالمی یوم خواتین لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ منائی گئی

340

عالمی یوم خواتین کے موقع پر بلوچستان میں خواتین اپنے حقوق کے لیے مظاہرے و تقاریب کا انعقاد کررہی ہے۔

خواتین کے خلاف تشدد، انہیں کام کی جگہوں پر ہراسانی کرنے، کاروکاری و سیاہ کاری، جبری گمشدگیوں سمیت خواتین کے دیگر مسائل کے خلاف خواتین نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا اور شہر مختلف شاہراہوں پر ریلی نکالی گئی جبکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ستر کی دہائی میں سینکڑوں بلوچ خواتین کو پاکستانی فوج نے لاپتہ کیا اور اپنی حوس کا نشانہ بنایا وہی سلسلہ آج بھی زرینہ مری اور دیگر بلوچ ماوں، بہنوں کی شکل میں جاری ہے۔ گذشتہ دنوں کئی عورتوں اور بچوں کو ڈیرہ بگٹی، کوہلو، مشکے، جھاو، آواران کے گردونواح سے اٹھاکر غائب کیا گیا اور گھروں میں لوت مار کے بعد جلایا گیا یہ سب بنگلہ دیش میں کیئے جانے والی ظلم کی نئی کڑی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہر عام و خاص بلوچ کو خفیہ اداروں کے اہلکار لاپتہ کرکے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شہید کررہے ہیں۔ آج انٹرنیٹ اور دوسری سہولیات کا تاریخ ساز دور ہے لیکن بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر اقوام عالم کی خاموشی مجرمانہ ہے۔

عالمی یوم خواتین کے موقع پر لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے یومن رائیٹس کونسل آف بلوچستان (ہَکپان) کے چیئرپرسن بی بی گل بلوچ، طلبا رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، وومن ڈیموکریٹک فرنٹ کے رہنماوں و کارکنان اور عورت الائنس کوئٹہ کی رہنما حمیدہ نور، بلوچستان نیشنل پارٹی کی شمائلہ اسماعیل سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے خواتین اور مردوں نے احتجاجی کیمپ میں شرکت کی جبکہ اس موقع پر وی بی ایم پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ بھی موجود تھے۔

کیمپ میں موجود تمام خواتین نے ایک نظم باری باری دہرایا جس میں لاپتہ بلوچ خاتون زرینہ مری سمیت لاپتہ افراد کے لیے آواز اٹھانے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کی گئی۔

ایکٹوسٹ ماہ روش بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ آج بلوچ عورت کا مسئلہ گیس پریشر میں کمی، بجلی کی لوڈشیڈنگ یا نلکے کا پانی نہیں بلکہ بلوچ عورت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا لخت جگر غائب ہے۔

کیمپ میں موجود بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے صبیحہ بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پدرشاہی نظام بہت خوفناک شکل میں موجود ہے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں پر آخری شکار بلوچ عورت ہے جو سڑکوں پر اپنے پیاروں کی بازیابی سمیت تعلیم اور اپنے دیگر حقوق کے لیے احتجاج کررہی ہے۔

صبیحہ بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جتنے بھی انسانی حقوق کے مسائل ہے ان کا سامنا عورت کررہی ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل ہوں یا ایس بی کے یونیورسٹی میں خودکش حملہ ہوں و دیگر واقعات سب میں بلوچستان کے خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔

واضح رہے عالمی یوم خواتین کے حوالے سے بلوچستان میں مختلف تقاریب کا انعقاد جاری ہے جبکہ سوشل میڈیا پر مختلف ہیش ٹیگ کیساتھ بلوچ خواتین کے کردار کو اجاگر کیا جارہا ہے۔