کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

254

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کو 3918 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی عہدیدار ثنا اللہ بلوچ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

مشکے کے رہائشی لاپتہ نوجوان نواب جان کے والد نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب تک سینکڑوں بلوچ خواتین سمیت ہزاروں افراد جبری طور لاپتہ کیئے گئے ہیں۔ فوجی کاروائیوں کے باعث ہزاروں بلوچ اپنے گھروں اور روزگار سے محروم ہوکر در در کی ٹھوکرے کھا رہے ہیں جنکی امداد بحالی کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور دیگر این جی اوز کو پاکستانی فوج و خفیہ ادارے اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں ہزاروں بلوچوں کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوچکی ہے۔ بلوچ قوم کے خلاف پاکستان کی یہ انسانیت سوز کاروائیاں اب بھی پوری شدت سے جاری ہے۔

ماما قدیر نے کہا کہ بلوچ کش کاروائیوں کے خلاف پاکستان کی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی نے کبھی بھی موثر آواز نہیں اٹھائی بلکہ چشم پوشی سے کام لیتے رہے ہیں جو بلوچ نسل کش کاروائیوں میں ان کی اعانت کا کھلا ثبوت ہے۔

اس موقع پر کیمپ میں موجود لاپتہ نوجوان نواب جان کے والد قادر داد نے بیٹے کی بازیابی کے حوالے سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ نواب جان کو 5 مئی 2017 کو پنجگور گُل مکران ٹرانسپورٹ سے سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد نے اٹھاکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔

 ان کا کہنا ہے کہ نواب جان کئی سالوں سے ایران و پنجگور روٹ پر گاڑی چلاکر اپنا گھر چلاتا تھا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ نواب جان نے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے لیکن کاروباری مخالفین کے کہنے پر ریاستی اداروں نے انہیں حراست میں لیکر لاپتہ رکھا ہے، دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نواب جان کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے قانونی حقوق دیئے گئے ہیں۔