کلچر ڈے کی حقیقت – شئے رحمت بلوچ

1392

کلچر ڈے کی حقیقت

تحریر: شئے رحمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کلچر کس چیز کا نام ہے؟ کلچر کا لفظی معنی ہے ثقافت۔ ثقافت میں کیا کیا چیزیں نہیں آتیں؟ اگر دیکھا جائے تو ثقافت میں ایک قوم کی طرز زندگی آجاتی ہے، جس میں، زبان، ملنے کا طریقہ، بات کرنے کا طریقہ ، مہمان نوازی، دشمن کو جواب دینے کا طریقہ، ایک قوم جو جس فن کی وجہ سے مشہور ہو، وہ فن، اقدار، روایات اور رسم، برادری، علم، قصے اور تاریخ یہ جتنی بھی چیزیں ہیں ان کی تاریخی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ثقافت بنتی ہے۔

لہٰذا یہ جو ساری چیزیں میں نے بیاں کیا ہے، ان ساری چیزوں کو یاد رکھتے ہوئے ، کلچر ڈے منایا جاتا ہے ، آج اگر کوئی قابض فوج آپ کو کلچر ڈے منانے سے نہیں روکتا ، یہ سوچنے والی چیز ہے ، کیونکہ ریاست کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ کوئی غلام قوم اپنے کلچر کو زندہ رکھنے کےلیے ایک خصوصی دن رکھے ، اور اس کو ہر سال آزادی سے منائے ، لیکن ! حقیقت تو یہ ہے کہ بلوچستان کے جتنے بھی علاقوں میں بلوچ کلچر ڈے منایا جاتا ہے ، وہاں سب پہلے پاکستانی جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، وہاں بلوچ قوم کے اصل فرزندوں کو بالکل بھی یاد نہیں کیا جاتا، جیسے کے نواب نوروز ، اکبر بگٹی ، بابا خیربخش ، اور جتنے حقیقی فرزند ہیں ان کو تو یاد بھی نہیں کیا جاتا ، جنہوں نے اس کلچر کو زندہ رکھنے کےلیے اپنا خون بہایا ہے ۔

اگر واقعی کوئی اپنے بلوچیت کو ثابت کرنا چاہے ، اس کو نہ تو دستار ( پگڑی) کی ضرورت ہے نہ ہی اس کو گیارہ میٹر کے شلوار کی، اس کو صرف ضرورت یہ ہے کہ اپنے ثقافت کو زندہ رکھنے کےلیے ہمہ وقت جدوجہد کرے، آج بلوچستان کے لوگوں کو مارا جارہا ہے، ان کو اغواء کرلیا جاتا ہے ، کوئٹہ کی یخ بستہ دسمبر کے مہینے میں ، ہماری بہنیں اپنے پیاروں کی تلاش میں کیمپ میں بیٹھ جاتے ہیں لیکن وہ کسی کو نظر نہیں آتے ، آج تک کیا کوئی یہ 2 مارچ منانے والوں میں سے اس کیمپ میں بیٹھا ہے ؟ بے گناہ بلوچ پاکستانی فوج کے ہاتھوں شہید ہوجاتے ہیں ، لیکن آج تک قابض ریاست کی خوف سے کسی نے بھی آواز نہیں اٹھایا ، وہی لوگ آج کلچر ڈے مناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ( ما چُکیں بلوچانی ما چُکیں بلوچانی ) ۔

آج اگر پشتوں اپنے کلچر ڈے کو مناتے ہیں، وہاں پاکستانی فورسز آکر پشتونوں پر تشدد کرتے ہیں ، لیکن بلوچوں پر کیوں نہیں کرتے، وہ اسی لیے ان لوگوں پر تشدد نہیں کرتے کیونکہ وہ ان بلوچوں کے ہاتھوں میں پاکستان کا جھنڈا دےکر ان کی تصوریں لیکر دنیا کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بلوچستان میں کوئی بھی مزاحمت نہیں ہورہا اور بلوچستان پرامن ہے ، ان کو اپنے پروپگنڈے کےلیے استعمال کرتے ہیں ، اگر آج ایسا نہیں ہوتا تو بلوچ کلچر ڈے منانے والے یا تو مارے جاچکے تھے یا وہ پاکستانی ٹارچر سیلوں میں بند تھے ، جس طرح کئی بلوچ اسٹوڈنٹ پاکستانی فورسز کے ہاتھوں اغواہ اور شہید ہوئے ہیں اسی طرح وہ بھی پاکستانی فورسز کی شکار ہوچکے ہوتے ۔

ان کو پتہ نہیں کہ اصل بلوچ وہ ہیں جو قابض سے لڑتے آخری سانس تک خون بہاکر ہمیشہ کےلیے امر ہوجاتے ہیں، وہی یہ خاک اور ثقافت کے اصل مالک ہیں، وہی لوگ جو بلوچستان کی آزادی کی خاطر جنگ لڑ رہے ہیں، وہی ہیں بلوچ قوم کے اصل وارث، وہی جنہوں نے اپنے بھائیوں کی لاشیں اٹھاکر ، ان کی مزاروں پر بلوچستان کے جھنڈے لہرائے ، بلوچستان اور بلوچ قوم کے اصل وارث وہی ہیں ، ثقافت کا دن منانا کوئی غلط بات نہیں ، لیکن جب تک ہم غلامی کے زنجیروں میں قید ہیں اس وقت تک کلچر ڈے منانا ہمارے لئے جائز نہیں کیونکہ ،ہم ابھی تک ہم نے اپنا فرض ادا نہیں کیا ہے ، اس دن سب ملکر کلچر ڈے منائیں گے جب ہمارا وطن آزاد ہوگا ، جہاں ہم آزادی سے اپنا ہر فیصلہ کرپائنگے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔