کراچی: بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج جاری

505

جبری طور پر لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کی جانب سے سندھ کے دارالحکومت کراچی میں احتجاجی کیمپ قائم کردی گئی ہے جہاں پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے لواحقین 48 گھنٹوں کے احتجاج کررہی ہے۔

لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے ایچ آر سی پی کے کارکنان و رہنماوں سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کیا۔

احتجاج میں شریک حانی گل بلوچ نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ساتھ ملکر اور ان کی تعاون سے 48 گھنٹوں کے لیے احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ کراچی پریس کلب کے سامنے قائم کیا ہے جبکہ وی بی ایم پی کا مستقل بھوک ہڑتالی کیمپ 27 جولائی 2009 سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے جاری ہے۔

حانی بلوچ نے کہا کہ گذشتہ سال وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ میں‘ میں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا کہ مجھے  میرے منگیتر محمد نسیم کے ہمراہ پاکستانی خفیہ اداروں نے 14 مئی 2019 کی رات کراچی سے اُٹھاکر لاپتہ کیا اور تین مہینوں تک نامعلوم مقام پر مجھے شدید ذہنی و جسمانی تشدد کے بعد رہا کردیا گیا جبکہ محمد نسیم تاحال لاپتہ ہے جن کی رہائی کے لیے میں احتجاج کررہی ہوں۔

احتجاج میں شریک اسد بلوچ کے لواحقین نے بتایا کہ اسد بلوچ کو 14 مارچ 2014 کو بی ایس او کے سابق چیئرمین زائد بلوچ کے ہمراہ پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے کوئٹہ سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جس کے بعد وہ اور چیئرمین زاہد دیگر ہزاروں لاپتہ بلوچوں کی طرح اب تک لاپتہ ہیں۔

لاپتہ بختیار کی اہلیہ نے بتایا کہ بختیار کو 13 فروری 2015 کو بلوچستان کے ضلع پنجگور سے لاپتہ کیا گیا ان کی بازیابی کے لیے ہم کوئٹہ اور کراچی میں احتجاج کرتے رہے ہیں لیکن تاحال ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔

انسانی حقوق کے لاپتہ کارکن راشد حسین کے لواحقین بھی احتجاج میں شریک تھیں ان کا کہنا ہے کہ راشد حسین بلوچ کو 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات کی خفیہ ایجنسیوں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جہاں انہیں چھ مہینے تک لاپتہ رکھا گیا جبکہ اس دوران متحدہ عرب امارات کی حکومت نے انہیں کسی قسم کی قانونی حقوق نہیں دیئے اور بعد ازاں 22جون 2019 راشد حسین کو غیر قانونی طور پر پاکستان کے حوالے کیا گیا جس کے بعد وہ تاحال لاپتہ ہے۔

مظاہرے کی رہنمائی کرنے والی حانی گل بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں کئی سالوں سے جاری ہے، سردار عطااللہ خان مینگل کے فرزند اسد مینگل اور احمد شاہ کرد کو 6 فروری 1976 کو پاکستانی فوج نے اغوا کیا تھا جن کے حوالے سے آج تک کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے جبکہ مشرف دور میں ’’جبری گمشدگیوں‘‘ اور ’’مارو پھینکو‘‘ کی پالیسی میں تیزی لائی گئی اس دوران بلوچستان سے متعدد لاپتہ افراد کی لاشیں ملی جبکہ اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئیں جن میں سب سے بڑی اجتماعی قبر خضدار میں توتک کے مقام سے دریافت ہوئی، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے رپورٹ کے مطابق خضدار کے اجتماعی قبر سے 169 افراد کی لاشیں ملی جن میں ایک شخص کی شناخت آواران سے لاپتہ شخص کے نام سے ہوئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ 2016 سے 2019 تک 3 ہزار کے قریب بلوچوں کو فوج و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے لاپتہ کیا اور 500 سے زائد بلوچ کل اینڈ ڈمپ پالیسی کا شکار ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستانی آئینی کے تحت لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے اپنا جہدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ہمارا مطالبہ سادہ اور واضع ہے کہ اگر ریاست سمجھتی ہے کہ بلوچ سمیت کوئی بھی پاکستانی شہری ریاست کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوث ہے تو ریاست، عدلیہ اور پولیس کے ذریعے اس کے خلاف کاروائی و ٹرائل کرے۔ اس طرح اپنے شہریوں کو اٹھا کر غائب کرنا از خود ریاست پاکستان و عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ عدلیہ و ججز پر نادیدہ قوتوں کی جانب سے کتنا دباو ہے مگر ہمیں پاکستان کی عدلیہ و آئین پر مکمل بھروسہ ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر چیز آئین پاکستان کے اندر عدالتی کاروائی کے ذریعے ہوں۔