نیشنل پارٹی بحران کے بھنور میں – ندیم گرگناڑی

682

نیشنل پارٹی بحران کے بھنور میں

 تحریر: ندیم گرگناڑی

دی بلوچستان پوسٹ

قوم پرستانہ سیاست اورمتوسط طبقہ، بلوچ قوم، بلوچ دھرتی کو ترقی وخوشحالی سے ہمکنارکرنے کا خواب دکھانے، سرزمین بلوچ کی رکھوالی، وت واجھی کا دعویٰ کرنے اورغریب لاچار، بزگر، دہقان چرواہے کو ترقی وخوشحالی کی راہ پرگامزن کرنے کے لئے جدوجہد کرنے والی پارٹی یا بنیادی طورپرسرداری نظام کوجڑسے ختم کرنے اورسردارکواستحصالی طبقہ اورسرداری نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابقہ کیڈرکو سیاسی عمل اورپارلیمانی سیاست میں شراکت دار، سرداری نظام کی مکمل بیخ کنی کے لئے میدان عمل میں عملی جدوجہد کا احاطہ اورسردارسے عملی طورپربیزاری کا اظہار نیشنل پارٹی کا اعلانیہ اظہار تھا۔ گوکہ بی این وائی ایم سے لیکربی این ایم۔ بی این ایم سے نیشنل پارٹی تک کاسفربلوچ غریب عوام کے لئے ترقی وخوشحالی کی نویدتھی۔

لیکن بلوچ عوام کی ترقی وخوشحالی کے خواب اس وقت چکناچورہونے لگے، جب ڈاکٹر عبدالحئ بلوچ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، ڈاکٹر یاسین بلوچ نے سرداروں کا ایک طاقتورجھتہ چیف آف جھالاوان کے سربراہی میں بی این ڈی پی ۔ بی این ایم کا ادغام کرکے بلوچ عوام کو بدحالی، پست حالی کے دلدل میں پھنسادیا۔ اوربی این ایم۔ بی این ڈی پی کے انضمام سے سرداروں میں خوشی کی لہردوڑگئی ۔ سردارکیوں نہ خوش ہوں؟ بی این ایم کی شکل میں سرداری نظام کو جڑسے اکھاڑنے میں نظریاتی کارکنوں کا ایک توانا آواز تھا جوسرداروں کے خواہش کے مطابق اب خود دم توڑگیاتھا۔

یہیں سے نیشنل پارٹی کے زوال کا دورشروع ہوا، سرداروں کے آنے سے مخلص اورنظریاتی ورکرنیشنل پارٹی سے دورہوتے گئے۔ مخلص اورنظریاتی ورکروں کی جگہ غیرنظریاتی اورلالچی ورکروں نے لے لی۔ پارٹی کے کچھ سیاسی ونظریاتی ورکروں کوبعدازاں ڈاکٹرعبدالحئ کے زریعے پارٹی سے نکلوا دیا اورسلسلہ یہاں بھی رکا نہیں بعدمیں ڈاکٹرعبدالحئ کوبھی پارٹی سے کھڈے لائن لگادیا۔ کیوں ڈاکٹرعبدالحئ کوکھڈے لائن نا لگائیں جنہوں نے انیسواٹھاسی کے الیکشن میں بابائے بلوچستان میرغوث بخش بزنجوکو بی ایس اوکے نوجوانوں سے ملکر الیکشن میں ہروایاتھا، وہ زخم کبھی بھی بھولنے والے نہیں تھے۔

وہ نیشنل پارٹی جو اپنے کو قوم پرستانہ سیاست سے الگ کرتے ہوئے ڈاکٹرعبدالمالک کے سربراہی میں ایک ملکی سطح کی پارٹی کے لبادے میں ازسرے نو وجودمیں لاکر دوہزارتیرہ کے الیکشن میں آٹھ صوبائی اسمبلی کے سیٹوں کے عیوض مکران میں انسرجنسی کو جڑسے ختم کرنے کے بدلے وزارت اعلیٰ ڈھائی سالہ معاہدے کے تحت ڈاکٹر عبدالمالک کے سربھٹادیا۔ جس میں تربت سٹی کے اندرزیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کروائے گئے تاکہ اگلے الیکشن میں مکران سمیت بلوچستان میں زیادہ سے زیاد صوبائی اسمبلی کی سیٹیں حاصل کرکے دوبارہ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ حاصل کرسکیں۔

لیکن بعدازاں حالات نے ایسا کروٹ بدل لیا کہ مکران خصوصاً تربت سٹی میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام کروانے کے باوجود ڈاکٹر عبدالمالک اپنے صوبائی سیٹ سے اتنا دل برداشتہ ہواکہ الکشن میں کاغذات جمع بھی نہیں کئے کہ مبادا ہارنہ جاوں۔ اسی طرح نیشنل پارٹی دوہزاراٹھارہ کے الیکشن میں دوست دشمن سے بغلگیرہوا کہ کسی نہ کسی طرح الیکشن میں کچھ سیٹیں جیت کر اپنا نام شہیدوں میں لکھوادیں ۔ دوہزاراٹھارہ کے الیکشن میں بلوچستان کے بزگ مفلوک الحال عوام نے نیشنل پارٹی پرایسا جھاڑوپھیردیا، جنہوں نے نہ صوبائی اسمبلی سے کوئی سیٹ جیتا اورنہ ہی قومی اسمبلی سے۔ یہ ہے مکافات عمل جس کا خمیازہ اب مزید پارٹی کے موجودہ بحران سے سامنے آرہاہے۔

جھالاوان بلوچستان میں سیاسی وقبائلی حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور تاریخی طورپراس خطے کی اہمیت ہے۔ اس خطے کی اہمیت بابائے بلوچستان میرغوث بخش بزنجو، سردارعطاءاللہ مینگل کی سیاسی وقبائلی تدبر کے حوالے بلوچستان بلکہ ملک وبیرونی ممالک میں بہت اہم رہاہے اوران کے ورثاء آج بھی ان ہی کے سیاسی وقبائلی کردار کے ثمرات سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ موجودہ دورمیں میرغوث بخش بزنجو کے سیاسی و وراثتی وارث میرحاصل خان بزنجو، سرداراسلم بزنجو، میرطاہربزنجو۔ سردارعطاءاللہ کے فرزند سرداراخترمینگل، جمیعت علماء اسلام کے مرکزی رہنماء سابق ممبرقومی اسمبلی مولانا قمرالدین، سنیٹرمولانا فیض محمد سمانی۔ چیف آف جھالاوان نواب ثناءاللہ خان زہری، میراسراراللہ زہری اس زرخیز خطہ جھالاوان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاسی حوالے سے جھالاوان کی سرزمین ہمیشہ زرخیزرہاہے، بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست کی داغ بیل یہاں سے رکھا گیاہے، قوم پرست پارٹیوں کی توڑجوڑبھی یہاں سے ہوئی ہے۔

حالیہ دنوں میں نیشنل پارٹی کے بحران کی ابتداء بھی جھالاوان سے ہوا ہے۔ دوہزاراٹھارہ کے الیکشن میں نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء سابق تحصیل ناظم خضدار آصف جمالدینی کو خضدارسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیاگیا، لیکن نیشنل پارٹی کے ٹکٹ دینے کے برعکس سرداراسلم بزنجو نے کسی اورسے الیکشن اتحادکرکے پارٹی کے سیاسی ونظریاتی ورکروں کویکسر نظرانداز کرکے اسی دن سے پارٹی میں بحران کی ابتداء کرادی۔ اوریہ لاوا اسی وقت سے پکنا شروع ہوا تھا اور اس اہم مسئلے پرپارٹی مرکزکو نوٹس لینے کی استدعا کی گئی تھی۔ مگر پارٹی کیا ایک بااثرقبائلی سردارکے خلاف کس طرح سزاوجزا کے لئے بازپرس کرسکتی تھی ؟ پارٹی کی جانب سے کوئی شنوائی نہیں ہوا تو پھرظاہرہے کہ نظریاتی ورکر اپنی راہیں جدا کرنے میں آزادہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خضدارکے ایک مخلص اورنظریاتی شخص آصف جمالدینی نے نیشنل پارٹی سے استعفیٰ دیدیا۔

آصف جمالدینی کے استعفیٰ سے نیشنل پارٹی کو کیا نقصان ہوگا؟ یہ تو بلدیاتی الیکشن یا کسی عام الیکشن میں معلوم ہوگا۔ تاہم آصف جمالدینی کے خلاء کو یہاں پرکوئی اور سیاسی کارکن نہیں کر سکیگا۔ آصف جمالدینی بی ایس او کے زمانے سے لیکر بی این ایم اورنیشنل پارٹی میں سیاست کے تمام داوپیچ سے اچھی طرح واقف ہیں اورانہوں نے پانچ سال تک اپنے ناظمی کے دورمیں سٹی خضداراورگردونواح کے عام لوگوں کے دل میں اپنے لیئے گھربنالیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پارٹی اورخاص کرجھالاوان کے عوام کے لیئے مالی اورجانی قربانی دی ہے، اس کے خاندان سے بھائی بھتیجا شہید کردیئے گئے۔ پھربھی وہ پارٹی کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف جمالدینی کے استعفیٰ کے بعد نیشنل پارٹی کے تمام سیاسی ونظریاتی ورکراستعفیٰ دے رہے ہیں۔ اوریہ استعفوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ یہاں پربھی نہیں رکیگی۔ بلکہ اس کے اثرات نال کے سیاسی ونظریاتی ورکروں پر بھی پڑیگا۔ جہاں پرورکروں کی ایک بہت بڑی کھیپ حاجی احمدنواز، خدابخش، ارباب، بزگر عبدالکریم کی ہمنوائی میں آصف جمالدینی کے قریبی دوست اورہمدرد ہیں۔ اگر یہ اب پارٹی سے استعفیٰ نہیں دیتے تو کسی بھی الیکشن کے موقع پر اپنے فیصلے کی توثیق کے لئےاپنا آخری آپشن استعمال کرسکتے ہیں۔

نیشنل پارٹی کے اندر کیوں بغاوت ہورہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ لوگ نیشنل پارٹی سے بیزاری کا اظہارکررہے ہیں؟ یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ کسی کے سمجھ میں نہ آئے۔ جھالاوان کے سطح پر گذشتہ بیس سال سے نیشنل پارٹی اقتدارمیں رہاہے، ان بیس سالوں کے دوران آیا عام لوگوں کے لئے ترقیاتی کام ہوا ہے؟ صرف چندافراد کو نوازا گیا، جس کی سزا غریب لوگوں نے دوہزاراٹھارہ کی الیکشن میں نیشنل پارٹی کو دیدیا۔

نیشنل پارٹی نے جس طرح نال میں میرخالدبزنجو کو نظرانداز کرکے، آج جس قرب اورازیت سے دوچارہے اب آصف جمالدینی بھی ان کے لئے نرم نوالہ ثابت نہیں ہوگا بلکہ آصف جمالدینی جیسے سیاسی کارکن یہاں کے سیاسی پارٹیوں کی ضرورت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔