مستور بد اندیش – برزکوہی

667

مستور بد اندیش

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

جنگ تباہی ہے، جب طبلِ جنگ بجتا ہے تو سورماؤں تک کے پیر لرزتے ہیں، زمین ہلتی ہے، کامیابی کی دعائیں گونجتی ہیں، کرب و الم سے چنگھاڑتی آوازیں معمول بن جاتی ہیں، محبت کے رشتے قربان ہوتے ہیں، ارمانوں سے تعمیر گھروں کے راکھ پر جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، مزاروں و عبادت گاہوں میں ہو سی خاموشی چھاجاتی ہے، عورتوں اور بچوں کے اعضاء بکھرے پڑے ہوتے ہیں، فضاء زہر اگلتی ہے۔ اس جنگ کی بدترین شکل یہ ہے جب یہ آپ نے شروع نہیں کی ہو بلکہ آپ پر مسلط کی گئی ہو، لیکن پھر آپ جانتے ہیں کہ اس تباہی سے نجات کا راستہ بھی صرف یہی جنگ ہے، یہ جنگ اپنے ساتھ جو بھی بدحالیاں و تباہ کاریاں لائے گی وہ آپکی آزادی اور اس جنگ سے ابدی نجات کی قیمت ہوگی۔ یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ جنگ سے نجات کی راہ صرف جنگ رہی ہے، امن کی بھاری قیمت صرف جنگ رہی ہے، آزادی کا معاوضہ صرف جنگ رہی ہے۔ جارحیت سے دفاع کا راستہ صرف جنگ رہی ہے۔ تباہی کو تباہ ہوکر تباہی سے روکا جاسکتا ہے، تبھی آپ کالے بادلوں کے چھُٹ جانے کی امید رکھ سکتے ہیں، تبھی آپ صبح نو کی تمنا کرپاتے ہیں، تبھی ایک آزاد دن کی امیدیں زندہ رہ پاتی ہیں۔ تبھی آپ ایک نئے، آزاد اور پرامن دنیا کی تعمیر کرسکتے ہیں۔

آزادی کا ایک سپاہی اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ اسکی آزادی کی قیمت کیا ہے، ہر ایک انسان حق و آزادی کا سپاہی اسلیئے نہیں بن سکتا کیونکہ فہم و ادراک کی یہ گہرائی اور عاقبت اندیشی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی کہ وہ جنگ میں امن کو دیکھ سکے، اور اس ٹھوس حقیقت کو قبول کرسکے کہ جس آزادی، امن و خوشحالی کی وہ چاہ رکھتا ہے، وہ جنگ و بربادی کے رستے سے ہی گذر کر مل سکتا ہے۔ آزادی کا کارکن یہ قیمت ادا کرنے، تمام مصائب کو قبول کرنے کیلئے شعوری طور پر تیار ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا میں آج جتنے بھی خوشحال و ترقی یافتہ اقوام آزادی کی زندگی گذار رہے ہیں، ان سب نے یہ قیمت ادا کی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنا خراج ادا کردیا ہے۔

شعور کا یہ اعلیٰ سطح اور پختگی کی یہ انتہاء ہی واحد وجہ ہے کہ دنیا کے آپ کسی بھی کونے میں جائیں، یا تاریخ کے کسی بھی دور میں جائیں۔ آپ کو آزادی کے سپاہی غازی ہوں یا شہید سب سے افضل نظر آئیں گے، تمام تہذیبوں میں محترم ملیں گے۔ ہر زمان و مکاں میں ہیرو ملیں گے۔

لیکن جب آزادی کا کوئی سپاہی یا کارکن یہ کہے کہ جنگ تو خواری ہے، مجھے تکالیف کا سامنا ہے، میرے اہلخانہ کا مسقبل کا کچھ پتہ نہیں، میرے بچوں کا تعلیم ادھورا ہورہا ہے، میری سرکاری نوکری چلی گئی، میرے پاس پیسوں کی کمی آگئی ہے، مجھے مصائب کا سامنا ہورہا ہے تو پھر کیا یہ اس جنگ کے بنیادی ادراک کا ہی نفی نہیں؟ کیا پہلا سوال ہی ذہن میں یہ نہیں ابھرتا کہ آپ نے جنگ اور تحریک کو سمجھا کیا تھا؟ کوئی پکنک یا کیمپنگ کے شغل پوری ہوگئی تو ٹینٹ باندھ کر گھر کو ہونا ہے؟

مجھے بلوچ تحریک میں جہاں ان باشعور اور پختہ فکر آزادی کے سپاہیوں کی اکثریت نظر آتی ہے، جو بہت واضح انداز میں جانتے ہیں کہ آزادی کیا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اسے حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے اور یہ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اسکی قیمت کیا ہوگی۔ شہید چاکر جیسے ہزاروں مثالیں ہیں جو پورا خاندان قربان کرکے رکتے نہیں ہیں، لیکن وہیں مجھے قلیل تعداد میں ایک گروہ ایسا بھی نظر آتا ہے، جنہیں سادہ الفاظ میں بیان کروں تو جنگ نے ڈرا دیا ہے اور مشکلات نے تھکا دیا ہے، اب وہ کسی نا کسی طرح کوئی باعزت راہ فرار کی تلاش میں دلائل گھڑتے نظر آتے ہیں۔ انکے ڈر یا تھکن کی وجہ یہ نہیں کہ وہ پیدائشی کم بہادر یا نازک مزاج ہیں بلکہ اسکی وجہ آزادی و نظریئے پر ایمان کی کمزوری اور جنگ کو اچھی طرح نہیں سمجھنا ہے۔

موخر الذکر افراد کے من گھڑت دلائل اکثر گھڑی کی سوئی کی طرح دو نقاط پر گھومتے نظر آتے ہیں، جس سے انکی پہچان بھی آسان ہوجاتی ہے، مزاحقہ خیز بات یہ ہے کہ یہ دونوں دلائل آپس میں متضاد ہیں اور ایک دوسرے کی تردید بھی کرتے ہیں۔ اول یہ کہ جی جناب! جنگ تکلیف ہے، مصیبت ہے، تباہی ہے، میری اور میری خاندان کی زندگی اور مستقبل داؤ پر لگی ہے، جان خطرے میں ہے یا فلانہ اسلیئے مجھ سے نہیں ہوپارہا، ایسی صورت میں جو بالکل بھی ضمیر فروش ہیں وہ تو بلاجھجھک دشمن سے سودے بازی کرلیتے ہیں، لیکن کچھ بلا واسطہ سودے بازی نہیں کرتے، انہیں کوئی انا، رشتہ یا اسٹیک روکے رکھتا ہے، وہ کوئی با عزت راہ فرار چاہتے ہیں۔ کسی غلط فہمی میں نا رہیئے، یہ بھی اتنے ہی خطرناک ہوتے ہیں، جتنے بلا جھجھک دشمن کے سامنے سربسجود ہونے والے خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ آپ کے اندر رہ کر مایوسی کی کیفیت پھیلانا شروع کرتے ہیں اور ان عناصر کے سرینڈر کرنے کیلئے تاویلیں اور وجوہات پیش کرکے اس جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، اسی بنیاد پر ایک ایسی فضاء بنانا چاہتے ہیں کہ تحریک کو بلیک میل کرسکیں اور فرمائشیں پوری کرسکیں۔ جی مجھے ماہانہ اتنا خرچہ چاہیئے یا مجھے صرف فلانہ کام ہی کرنا ہے، یا مجھے فلانہ ملک بھیج دو ( ان افراد کا ذکر نہیں جنہیں تنظیمیں خود ضرورت کے پیش نظر کسی باہر ملک بھیجتی ہیں)۔ جب انکی فرائشیں پوری ہوئیں تو یہ تحریک کیلئے ایک بلیک میلنگ اور کمزوری ہوگی اور اگر نہیں ہوئی تو یہ عناصر اس کو جواز استعمال کرکے راہ فرار اختیار کرینگے اور یہ دلیل دینگے کے تحریک یا تنظیم نے ہمارے لیئے کچھ نہیں کیا، ہم مجبور ہوئے۔

دوسری یا متضاد دلیل جو پہلے دلیل کی تردید کرتی ہے وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ جناب جنگ نہیں ہورہی، رک گئی ہے یا مدہم ہوگئی ہے، اب ہم کیا کریں، ہم مجبور ہیں ایسی حالت میں واپس جائیں۔ یعنی جب جنگ تیز ہو تو انکی تکلیف تیزی اور مصائب ہوتی ہیں اور جب جنگ کے رفتار میں سستی ہو تو یہ پھر اسی سستی کو جواز بناتے ہیں۔ گو اس سوچ کے افراد کیلئے کوئی بھی چیز قابل قبول نہیں ہوتی، کیونکہ بنیادی طور پر انکے شعور کے قید میں جنگ یا تحریک شروع سے قابل قبول نہیں ہوتا۔

ماں باپ، بھائی بہن، بچوں و خاندان وغیرہ کی خاطر یا جی میں مجبور ہوکر اپنا عزت و غیرت، ننگ و ایمان، فکر، قوم و وطن تحریک، سنگتوں کا لہو، ماں بہنوں کی سسکیاں، آنسو سب کچھ لیکر دشمن کے سامنے سرجھکا کر، آنکھیں سفید کرکے دستبردار ہوتا ہوں۔ کیا یہ بے شرمی کی انتہاء نہیں ہے؟ کیا جب ہم نے جنگ کے پرکھٹن راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا، تو اس وقت ہم نے یہ کہا تھا، یہ سوچا تھا کہ جنگ کے ساتھ ساتھ ہم کو تنخواہ ٹی اے ڈی اے الاونس ، روٹی کپڑا مکان، بنگلہ گاڈی، بچوں کے پڑھائی کا وظیفہ وغیرہ سب وقت پر ملے گا یا پھر اس وقت ہم کو ماں باپ، بھائی بہن، بچوں و خاندان کا خیال و خاطر نہیں تھا؟ کس طر ح اور کیسے ہم اپنی بزدلی، خوف، ڈرپوکی کو انتہائی بے شرمی کے ساتھ خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر بے شرم وہ بھی ہوتے ہیں، جو ایسے راہ فراریت اختیار کرنے والوں کے دفاع میں لغو قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں۔

“جی جنگ نہیں رہا، کچھ نہیں ہے، مجبوری ہے، بس اور کیا کریں، اگر بالفرض جنگ نہیں بھی ہو، کچھ بھی نہیں رہے تو پھر کیا منہ کو کالا کرنا چاہیئے؟ بالفرض جنگ نہیں ہورہی تو آپ اس جنگ کا حصہ ہو، دستبردار ہونے کے بجائے، آپ جنگ میں تیزی پیدا کیوں نہیں کرتے؟ یہ جو آج تک شہید ہورہے ہیں یا جو لاپتہ ہورہے ہیں یا پورے بلوچستان میں ابھی تسلسل کے ساتھ آپریشن ہورہے ہیں، یہ جو دشمن پر متواتر حملے ہورہے ہیں، یہ کیا جنگ کے زمرے میں شمار نہیں ہوتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر راہ فراریت، خاموشی، بے حسی، بیگانہ پن سے بہتر نہیں کہ خود ہمت کریں؟

اگر بہانہ بازی، جواز تراشی، لغویت، بے منطق چرب زبانی، جھوٹ، فریب، منافقت سے بزدلی کو چھپایا جانا ممکن ہوتا تو اس وقت پوری دنیا کے تاریخ میں کوئی بزدل و ڈرپوک نہیں ہوتا، سب کے سب بہادر کہلائے جاتے۔

کچھ ایسے ہی لغو قسم کے باتیں یا اصطلاحات شروع سے ہی راہ فراریت اختیار کرنے والے و ڈرپوک انقلابی ہمیشہ سے استعمال کرتے آئے ہیں، ان کو خود بھی ان باتوں و اصطلاحات کا نا آگے کا پتہ ہے، نا پیچھے کا، صرف اپنی بزدلی کو چھپانے کی خاطر طوطے کی طرح رٹہ لگاتے ہیں۔

یہ ہمارے یہاں جدوجہد میں ایک مخصوص نفسیات و سوچ ہے، کوئی بھی کسی بھی حد تک اگر جدوجہد میں ہوتے ہوئے اپنے ہی فکر و نظریئے اور اہم مقصد پر مکمل یقین نہیں رکھتا ہو یعنی جنگ کو اپنا جنگ، دشمن کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا ہو اور قومی آزادی کی جنگ میں پورا فیصلہ نہیں کرچکا ہو، مطلب جذباتی، تصوراتی، خوش فہمی، مجبوری وغیرہ کے بنیاد پر جنگ میں کود پڑا ہو تو اکثر لوگ دانستہ یا غیر دانستہ، بلاواسطہ یا بالواسطہ جنگ سے راہ فراریت اختیار کرنے والوں کا دفاع کرتے ہیں، مطلب یہ ذہن نشین ہونا چاہیئے کہ وہ بھی کہیں نہ کہیں اپنے ذہن کے کونے میں راہ فراریت کیلئے ایک جگہ چھوڑ چکے ہیں، صرف موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

بلوچ تحریک دنیا کے دوسرے تحریکوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں، اسلیئے ایسے مسائل اور تحریک کے اندر ایسے عناصر کی بروقت نشاندہی انتہائی ضروری ہے۔ آزادی کا جھنڈا گاڑھنے تک بلوچستان کی آزادی کے حقیقی سپاہی اپنے صفوں میں ایسے ذہنی شکست خوردہ عناصر دیکھتے رہیں گے۔ ان ذہنی شکست خوردہ عناصر کی سب سے بڑی کامیابی اور سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ تحریک میں اپنے مفادات کیلئے بلیک میلنگ کی روایت قائم کرنے اور کارکنوں میں مایوسی کی فضاء پھیلاتے ہیں، انہیں کامیاب ہونے نہیں دیا جانا چاہیئے۔ اسکے تدارک کیلئے اول لیڈرشپ کو کسی بھی طور پر مصلحت پسندی کا شکار ہوکر بلیک میل نہیں ہونا چاہیئے، اور ان عناصر کا صفایا کرتے رہنے چاہیئے دوم کارکنان کو ایسے مایوسی پھیلانے والے عناصر کے عزائم کو سمجھنا چاہیئے اور اس سے متاثر ہونے سے بچنا چاہیئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔