عورت برابری کا حقدار ہے – گڈُو بلوچ

565

عورت برابری کا حقدار ہے

تحریر: گڈُو بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کائنات روانگی میں خوبصورت لگنے لگتا ہے, اگر ہوا رُک جائے تو درخت پھل دینا بند کر دیتے ہیں۔ جب یہ سب اپنے کام ترک کردیں پھر ظاہر ہے نتیجہ قیامت خیز ہی ہوگا۔ یہی فلسفہء مساوات اور برابری انسانی معاشرے کے لیے بھی ہے۔ اسی سلسلے میں عورت کا کردار اہم اور بنیادی ہے۔

اگر عورت ماں نہ رہے، اگر عورت بہن اور بیٹی نہ رہے، اگر عورت بیوی نہ رہے، بلاشبہ انسانوں کا معاشرہ قائم نہ رہے گا۔ یہ سیدھا سا تاریخی سچ ہے اور یہی سچ مغرب میں زمینی حقیقت بن چکا ہے۔ یہ سچ مشرق میں پیش قدمی کررہا ہے۔ اسی کڑی کا حالیہ مظاہرہ فرانس، سعودی عرب اور اب پاکستان میں سامنے آرہے ہیں۔ انہیں سمجھنے کے لیے اس کو تاریخی تناظر ميں دیکھنا ضروری ہوگا۔

مرد اور عورت انسانی معاشرے کی برابری کے اکائی ہیں۔ یہ برابری خاندان تشکیل دیتی ہے، خاندان معاشرہ سازی کرتا ہے۔ مستحکم معاشرہ تہذیب کی پیداواری میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ انسانی تہذیب ہی دنیا کی منزل ہے، عورت اس سارے سفر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر یہ کردار ہاتھ سے نکل جائے تو تہذیب کا زرہ، زرہ بکھرجاتا ہے۔

مغرب میں عورت کا استحصال ابتدا سے ہے۔ یورپ کی Emancipation Movement سے شروع ہوتا ہے۔ ظالمانہ اور جاگیردارانہ مظالم کے خلاف عورتوں نے تحریک چلائی۔ زمینداروں کی جنسی ہراسانی سے نجات کے لیے جدوجہد کی، ووٹ کے لیے آواز بلند کی، عالمی قوانین میں برابری کا حق مانگا۔ مگر مظالم کچھ اورسنگین ہوگئے۔ صنعتی دور کی شروعات نے شہروں، دیہاتوں، اور قصبات کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی۔

حقوق کی تلاش میں سرگرداں عورت مشینی فیکٹریوں کی جال میں جا پھنسی۔ جب دھواں اڑتی تو مایوس چہروں پر سیاہی چھائی ہوئی تھی۔ عورتوں کو حقوق نہ دیے گئے، بلکہ مزید جنسی ہراسانی کا شکار بنایا گیا۔ مجبوری نے اس حال میں پہنچایا کہ جسم فروشی بھی ضرورتوں کو پُر نہ کرسکی۔ بچوں کو فیکٹریوں کی کال کوٹھڑیوں میں بچپن بِتانا پڑا۔ یہ ہے جدید دور کی وہ آبیاری، جس کے تناظر میں عورت کا حال سمجھنا بہتر ہوگا۔ کیونکہ حقوق اور برابری کے حالیہ نعروں کا ماضی صنعتی دور کی ہولناک وراثت ہے۔ یہ دور عورت کی تباہی اور خاندان کی بربادی کا دور تھا۔ ایک ماں اور ایک بیوی کے جذبات مشینوں میں کچلے گئے۔ جسم اور روح کا رشتہ جوڑتے جوڑتے عورت سب رشتے توڑ بیٹھی۔

اب وہ صرف پراڈکٹ بن چکی تھی، جسے پسند کیا جاتا تھا، خریدا جاتا تھا، بیچا جاتا تھا، اور بے عزت کیا جاتا تھا۔ عورت کی یہ حالت مزید خراب ہوتی چلی گئی، رہی حقوق کی صورتِ حال فریب اور دھوکے کی زد میں ہے۔ آج کی عورت کا حال فرانس سے تازہ ترین سروے میں سامنے آیا ہے۔ فرانس کی کُل خواتین کا 12 فیصد یعنی چالیس لاکھ ایک یا زائد بار جنسی زیادتی کا شکار ہوچکا ہے۔ فرانسیسی تھنک ٹینک فاؤنڈیشن کی رپورٹ کہتی ہے کہ 43 فیصد خواتین کو کم از کم ایک بار ہراساں کیا گیا۔ 58 فیصد فرانسیسی خواتین کونازیبا تبصروں اور تجاویز کا سامنا کرنا پڑا۔ اس رپورٹ کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ 42 فیصد واقعات میں بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کو اپنے ہی گھروں میں نشانہ بنایا گیا۔ ان خواتین کا پانچواں حصہ خودکشی کی کوشش بھی کرچکا ہے۔ یہ جائرہ رپورٹ 2167 خواتین کی آراء سے تیار ہوئی ہے، یعنی اصل صورتِ حال بہت زیادہ سنگین ہے۔ مالی مجبوریوں اور نشے کی حالتوں میں جنسی استحصال تشویشناک عمل ہے۔

اب یہ بھی دیکھنا ضروری ہے مسلم ملک سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے یورپ سے وژن 2030 کا پراجیکٹ درآمد کیا ہے۔ اس کا سب سے اہم پہلو عرب مسلمان عورت کو گھر کی چار دیواری سے فیشن شو تک پہنچانا ہے۔ مغرب کا فلسفہء مساوات برابری ہی استعمال کیا جارہا ہے۔ بظاہر مختصر قسم کی اجازتیں دی جارہی ہیں، جو اسلام کی نسبت عرب ثقافت سے زیادہ متعلق ہیں۔ ان ہی اجازتوں میں رکاوٹوں کو ہموار کی جارہی ہے، جیسے خواتین کا سینما اور خواتین کا فیشن شو وغیرہ۔ تفصیل روز بہ روز سامنے آرہی ہے۔ مسلمان عورت کی تاریخ اور مغرب کی عورت سے کوئی موازنہ کیا جاسکتا ہے؟

مغرب کی عورت کے معیار اور تاریخ کا ذکرآچکا ہے۔ اسلام میں عورت کے لیے ذلت موجود نہیں اس لئے عورت کو برابری کا حق دیا جائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔