سترہ مارچ اور مجید برگیڈ کی بنیاد – برزکوہی

984

سترہ مارچ اور مجید برگیڈ کی بنیاد

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

دس سال قبل یعنی آج ہی کے دن کوہ چلتن و کوہ مردار کی گود میں، ہمارے خون سے لت پت، لہولہان شہر مکہ ء شال میں دوپہر کے تقریباً دو بجے گولی مار چوک کے قریب گولیوں کی گرج میں پاکستانی فوج کے خلاف ایک بلوچ نوجوان گھمسان کی جنگ میں مشغول تھا۔ دشمن سے دوبدو لڑنے والا بلوچستان کا یہ شہزادہ، منگوچر و خلق اسماعیل آباد کا فرزند پھل مجید جان ثانی تھا۔ مجید نے دشمن کو آتے دیکھ کر انکے سامنے شعلے برسانے والا دیوار بن گیا اور اپنے ساتھیوں کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوا۔ وہ اکیلے پوری فوج پر قہر بن کر ٹوٹتا رہا، چٹانوں سے رموزِ مزاحمت سیکھنے والے اس مردِ شجاع کے سانس اکھڑے لیکن قدم نہیں۔ اب وہ بہادری کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے سر اٹھا کر دونوں بڑھے بھائیوں سے مل سکتا تھا۔ وہ فدائی اول شہید مجید لانگو اول اور سگارِ بلوچ کا خطاب پانے والے پہلے بلوچ سورما شہید امیر بخش لانگو کو بتا سکتا تھا کہ وہ قومی روایات اور خاندانی رِیت کو زندہ رکھ کر ہی مرا ہے۔ لیکن شومئی شال کے وہ ایک اور بہادر و عظیم انسان سے محروم ہوگیا۔ بہادر و سورماوں میں سے ایک اورکم ہوا، دشمن پرسکون و آرام کی نیند سونے کی خوشی میں ناچنے لگے۔

کہیں امید ٹوٹنے لگے، کہیں حوصلے بکھرنے لگے، کہیں آنسو بہنے لگے، کہیں پھر سے مجید سے مجید بن کر آگ و شعلوں سے طوفان اٹھنے لگے، ایسی ہی ملتے جلتے کیفیات و جذبات اور تاثرات میں چلتن کے دامن اور آج کے بدبخت و لاوارث نیو کاہان میں ہزاروں پر فخر کندھوں کے سیلاب پر ہوتے ہوئے، مجید دھرتی ماں کی مٹی سے بغلگیر ہوکر، ابدی آرام کیلئے ماں کی کوکھ میں سو گیا۔

کئی من مٹی اوپر ڈال دی گئی، کیا دفن ہوگیا؟ سوچ تو دفن نہیں ہوتے، بیج تو دفن نہیں ہوتے۔ اس بیج کو تو خون کی سیرابی حاصل تھی۔ اسے پھوٹنا، اگنا اور پھلنا اور پھولنا تھا۔ سو یہ دفن ہوتے ہی اگ اٹھا۔ اسی دن ہی، اسی وقت ہی، سرمئی و بلند اور عظمت کے نشان درہ بولان سے ایک پرجوش آواز اٹھی اور ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے بلوچ کی تاریخ کا دھارہ بدل دیا۔ اپنے وقت میں ایک معمول کا فیصلہ نظر آنے والا یہ فیصلہ اتنا بھاری تھا کہ آنے والے وقتوں میں تاریخ نویس جدید بلوچ تاریخ دو حصوں میں بانٹ کر دیکھیں، قبل از مجید اور بعد از مجید۔ یہ مستقبل بین عظیم بلوچ جنرل، جدید بلوچ گوریلہ وار فیئر کے بانی استاد اسلم بلوچ تھے۔ انہوں نے آج سے ایک دہائی قبل آج کے ہی دن یہ فیصلہ کیا کہ بی ایل اے اپنی فدائین بریگیڈ تشکیل دیگی۔ اور اس بریگیڈ کا نام مجید بریگیڈ رکھ دیا۔ مجید بریگیڈ؟ کیونکہ مجیدین نے فدا ہونے کے رسم کو یوں عام کیا۔ ایک مجید وہ جو ستر کی دہائی میں پہلے بلوچ فدائی بنے، ایک مجید ثانی آج جس نے جدید بلوچ تحریک میں مجیدیت کی ریت کو زندہ رکھا۔

اس وقت شاید کسی کو یقین و گمان ہی نہیں تھا کہ واقعی آگے چل کر بلوچ تحریک میں بلوچ فدائین پیدا ہونگے۔ اور یہ صرف دعویٰ و بیان اور اعلان نہیں ہوگا بلکہ عملاً ایک فدائین بریگیڈ ہوگا۔ کسی کو یقین تھا یا نہیں تھا لیکن اسلم اور اس کی ٹیم کو پورا یقین تھا، ان کو ادراک تھا اور ان کو علم و آگاہی تھی کیونکہ اسلم خود علم و آگاہی اور پیش بینی کا دوسرا نام تھا۔

اس دن کے بعد جنرل اسلم نے دن رات محنت و مشقت اور توجہ و دلچسپی سے بی ایل اے فدائین مجید بریگیڈ پر ایمانداری و مخلصی سے کام کرنا شروع کیا اور مجید بریگیڈ کا ایک عملی اور منظم و مضبوط ٹیم تیار کی، جو آج بھی بلوچ قوم اور خاص طور پر بلوچ نوجوانوں کیلئے ایک امید و حوصلہ بن کر دشمن کے لیے خوف و شکست کی علامت بن چکا ہے۔

سترہ مارچ 2010 کو ایک بیج کی طرح جس سوچ کو دفن کیا گیا تھا، وہ 2011 تک تیار ہوکر پودا بن چکا تھا۔ اور مجید بریگیڈ کے پہلے باقاعدہ فدائی باز خان مری عرف درویش 30 دسمبر 2011 کو دشمن کے حواریوں پر اس وقت شال میں قہر بنکر ٹوٹا، جب دشمن کو لگ رہا تھا کہ وہ اب بلوچوں کی مزاحمت کے آخری حد سے واقف ہوچکا ہے۔ اس سلسلے کو رکنا نہیں تھا، مجید بریگیڈ نے تاریخ بدلنی تھی، بڑی چیز، بڑی تبدیلی بڑی قربانی مانگتی ہے۔ اسی لیئے مجیدیت کے کاروان کو آگے بڑھانے، فدا ہونے کے روایت کو مضبوطی سے زندہ رکھنے اور تحریک کا رخ موڑنے کیلئے۔ مجید بریگیڈ کے خالق و بانی جنرل اسلم بلوچ کو جنرل سے آگے بڑھنا تھا۔ اسے وقت کا ابراہیم بننا تھا۔ اور وہ نہیں ہچکچایا۔ 11 اگست 2018 کو انکے جوانسال بیٹے ریحان اسلم بلوچ نے بلوچ تاریخ کی تیسری اور جدید تحریک کا دوسرا فدائی حملہ کرکے اس روایت میں ایسی جان ڈال دی کہ پھر محض تین ماہ بعد ہی 23 نومبر 2018 کو تین اور فدائین ازل خان مری، رئیس بلوچ اور رازق بلوچ بھی فدائی حملہ کرکے فدا ہوگئے۔ 25 دسمبر 2018 کو اس کاروان میں مجید بریگیڈ کے ایک اور فدائی بابر مجید کا اس وقت نام شامل ہوا، جب وہ اپنے جنرل اور مجید بریگیڈ کے بانی و خالق کو بچانے کی کوشش میں فدا ہوگئے۔ دشمن خوش ہوا کہ جنرل اسلم اب نہیں رہا تو بلوچوں کے مجید بریگیڈ جیسے خطرناک ہتھیار سے انکا مزید واسطہ نہیں پڑیگا، لیکن جنرل نے راہ دِکھا دی تھی۔ اور اب وہ جسم نہیں فکر کی صورت میں رہنمائی کررہے تھے۔ اس بات کو 11 مئی 2019 کو کچکول، اسد، حمل اور منصب نے گوادر میں دشمن کے دل پر وار کرکے ثابت کردیا۔ اور یہ کاروان ایک دہائی گذرنے کے باوجود جاری ہے۔ وہ بیج اب ایک تناور درخت بن چکا ہے۔

شہید مجید کی بہادری و جرت، جنگی حکمت عملی اور کارناموں اور کارگردگی کو کیسے اور کن لفظوں کا سہارا لیکر کوئی بیان کرے، آج بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں میں انکی ہمت و بہادری خود گواہی دے رہا ہے۔ مجید کے خون کا رنگ صرف سرخ رنگ نہیں ایک نیاجوش اور نیا انقلاب بن چکا ہے۔ دشمن آج بھی ضرور سوچے گا، دس سال بعد بھی مجید ختم نہیں ہوا اور جب تک اس صفحہ ہستی پر ایک بھی بلوچ سانس لے رہا ہے یہ سوچ ختم نہیں ہوگا۔

گوکہ مجید کے بعد مزید مجید ہوئے اور ساتھ ساتھ مجید کے قدموں کی تاثیر و طاقت کی تاب نہ لاتے ہوئے کئی چھوٹے دل والے توبہ کرکے معافی مانگ کر دشمن کے ہاتھ پیر پڑ کر پنجابی اور پرانے دلالوں کے سامنے خود دلال بن کر بیعت کرگئے۔

یہ تو ہوتا ہے، یہی زندہ اور چلتے تحریکوں کا اصل دود و دروشم ہوتا ہے، یہ قومی آزادی کی تحریک و قومی جنگ ہے، یہ جاہلوں نکموں اور بزدلوں کی بس کی بات نہیں ہے۔ یہ بہادروں اور سورماوں کا مقدس راستہ ہے۔ یہ وہی سمندر ہے جس کا قصور و گناہ فقط یہی ہے کہ وہ اپنے اندر گند و غلیظ چیزوں کو برداشت نہیں کرتا ہے اور کنارہ کردیتا ہے۔

یہ تھکے ہوئے، بھٹکے ہوئے، ڈرے ہوئے، چھپے ہوئے اور الجھے ہوئے، متذبذب اور ڈگمگاتے ہوئے قدموں کے شکار لوگوں کو اپنے سینے میں کبھی جگہ نہیں دیتا کیونکہ یہ تحریک ہے اس کی جنم سے لیکر پرورش تک خون و پسینہ سے ہوتا ہے نہ کہ بیڈرومز میں ہوتا ہے۔

آزاد تو وہ ہوتے ہیں جو مزاحمت کرتے ہیں، باقی سب مشین کے کل پرزے ہیں۔ تبھی نیطشے اپنی کتاب “بتوں کی گودھولی” میں کہتا ہے کہ ” آزاد انسان جنگجو ہوتا ہے۔ آپ ایک آزاد انسان یا ایک آزاد قوم کی آزادی کو کیسے ناپ سکتے ہو؟ انکی مزاحمت کی سکت سے۔ ان مصائب سے جن پر انہیں فتحیاب ہونا ہے۔ ان کوششوں سے جو عام انسانوں اور عام قوموں کے مقابلے میں انکی فضیلت ثابت کریگی۔ اعلیٰ درجے کے آزاد انسان صرف اعلیٰ درجے کے مصائب میں ہی ملتے ہیں۔ برتر انسانوں کی تخلیق صرف سخت حالات میں ہی ہوتی ہے۔ کوئی بھی خوشحالی و نرم بستر پر عظیم نہیں بن سکتا۔ عظیم خطرے، عظیم انسانوں کی تخلیق کرتے ہیں۔ زندگی کا پہلا اٹل اصول: طاقت صرف ان قوموں اور اس انسان کو ملتا ہے، جو پہلے اسے چاہتا ہے۔ یاد رکھو، یہ بات اچھی طرح یاد رکھو۔ آزادی ایسی چیز نہیں جو آپکے پاس ہے یا آپکے پاس نہیں ہے۔ بلکہ آزادی یہ ہے کہ آپ اسکی خواہش کرتے ہیں، جسے لڑ کر پاتے ہیں۔”

آج ہی کا دن مجید کا ایک سفر ختم ہوا، پھر ایک نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہوا، یہ سفر جاری ہے، یہ سفر ہزاروں و لاکھوں مجید پیدا کرکے آگے بڑھے گا اور بڑھتا چلے گا، یہ بہادروں کا ایمان و یقین ہے، بزدلوں کا نہیں کیونکہ یقین و ایمان ہمیشہ بہادروں کا ہوتا ہے۔ بزدلوں کا نہیں کیونکہ بہادر ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، یقین و ایمان زندہ لوگوں کا ہوتا ہے۔ مردوں کا نہیں ہوتا ہے اور بزدل اس دن مر جاتا ہے جب وہ بزدل بنتا ہے۔

یہ فیصلہ ہے بلکہ یہ سمجھنے اور سوچنے کی بات ہے اور کچھ نہیں ہے، اس میں کوئی فلسفہ نہیں ہے، بالکل سیدھی سادھی بات ہے کہ موت ایک سچائی اور اٹل حقیقت ہے۔ اس سے بھاگنا، جھکنا، ڈرنا، رونا، پیٹنا، چیخنا، دھاڑیں مارنا، سر کو چھپانا پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑے گا، پھر کیا اس سے قبل اگر بہادری سے جینا کچھ کرکے دکھانا اور جی کر مرنا بہترین موت نہیں ہوگا؟

یہی فلسفہ فکر مجید کے درویشوں کا تھا، جنہوں نے اپنے خون کی آبیاری سے آج قومی تحریک و بلوچ قومی جنگ کو پورے دنیا میں وہ مقام عطاء کیا، شاید پہلے کبھی نہیں تھا ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔