بلوچستان اور برطانوی مؤرخین | قسط 25 – حرف آخر

332

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

قسط 25 |حرف آخر (پہلا حصہ)

       اس طویل بحث میں کئی ایسی باتوں کا انکشاف ہوا کہ جن پر ماضی میں کبھی غور نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان اہم باتوں پر سنجیدگی سے توجہ دی گئی ۔ یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ برطانیہ سمیت ہر وہ طاقتور قوت جو خطہ بلوچستان پر قابض رہی اس کی حیثیت ایک فاتح کی سی تھی۔ لہٰذا اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ فاتح کبھی بھی مفتوح کا خیرخواہ نہیں ہوتا۔ برطانیہ جو سات سمندر پار سے اس انجان خطے میں آیا تھا تو کیا اس کا مقصد اپنا وقت، اپنی دولت، اپنا علم اور اپنا ہنر ان مفتوح باشندوں کو دینا تھا یا یہ کہ وہ اس (بقول برطانوی مورخین) وحشی، غیر مہذب اور بوسیدہ قوم کو ترقی اور تہذیب سکھانے آیا تھا۔ یقیناً برطانیہ کے ایسے مقاصد ہرگز ہرگز نہ تھے بلکہ اس کے اپنے مفادات تھے کہ جو اس گذشتہ طویل بحث سمیت بیسیوؤں دیگر تاریخی کتب میں مذکور ہیں۔ لہٰذا بلوچستان پر قبضہ اور یہاں ہر حوالے سے اپنے مقاصد کے لئے کام کرنا برطانوی توسیع پسند پالیسی کا حصہ تھا جس میں بلوچ قوم یا ان کی سرزمین کی خیر خواہی اور بھلائی کا کوئی مقصد شامل نہ تھا۔

            اس بحث سے یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ گرانٹ، پوٹینگر اور کرسٹی اور دیگر برطانوی فوجی جاسوسوں کو انتہائی مکروہ اور مذموم مقاصد کی خاطر بلوچستان بھیجا گیا تھا اور انہوں نے اپنے مقاصد سے بھی کئی زیادہ مکروہ اور مذموم کام کئے۔ پوٹینگر نے بلوچ براہوئی زبان میں فرق کو محسوس کرتے ہوئے انتہائی مکاری کے ساتھ انہیں الگ الگ نسلی گروہوں میں تقسیم کر کے آپس کی تفریق میں ڈالنے کی کوشش کی۔ جو اتنا مذموم عمل تھا کہ اس کے منفی اثرات مرتب ہونے سے پورا بلوچستان جل اٹھتا۔ اس تاریخی حقیقت کو کہ لفظ براہوئی کا بحیثیت قوم بلوچستان میں کوئی تصور نہ تھا اور زبان کی حد تک محدود تھا۔ یہ لفظ پوٹینگر سے قبل (غالباً) کسی مصنف نے استعمال نہیں کیا تھا اور خوانین قلات براہوئی خانوادہ سے ہونے کے باوجود اپنے ساتھ بلوچ اور خان بلوچ تحریر کرتے تھے۔ مگر پوٹینگر نے ان حقائق کو یکسر جھٹلایا اور یہ بھی تسلیم نہیں کیا کہ خود ان کے اسلاف (سکندر اعظم کے مورخ ایرین) نے لفظ اربوئی کو ہزاروں سال قبل سطح مرتفع جھلاوان و قلات کے قبائل، ان کے خطے اور ان کے آبی وسائل کے لئے استعمال کیا تھا مگر پوٹینگر نے یہ لفظ صرف ایک تفریحی مقام تک محدود کرکے اس کے معانی تک تبدیل کئے۔ علاوہ ازیں کئی ایسی رسموں اور عادتوں کا تذکرہ کرکے بلوچ قبائل کو غیر مہذب ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جن کا بلوچ قبائل میں دور دور تک شائبہ تک نہیں ملتا۔

            اس بحث سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ بلوچوں کی نسلی اصلیت کے بارے میں شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں بھی انہی برطانوی جاسوسوں اور ایجنٹوں کی پیداکردہ تھیں۔ انہوں نے آپس میں اختلافی نظریے پیش کرکے آنے والے محققین کے لئے مشکلات پیدا کیں۔ بحث سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ان برطانوی جاسوس مورخین میں سے چند ایک نے بلوچوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر ان کی نسلی اصلیت کو انتہائی مبالغے کے ساتھ بیان کیا اور ان کا رشتہ قدیم حکمران خاندانوں کے ساتھ ملایا جیسا کہ پروفیسر رائولنسن، اور بعض دیگر نے انتہائی لغویات بیان کئے۔ مگر ان کی تعریفیں اور لغویات دونوں بلوچوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئیں اور صدیاں گذر جانے کے باوجود آج بھی بلوچ مورخین بلوچوں کے نسلی یا قومی تعلق کے لئے کسی ایک نظریے پر متفق نہیں ہیں۔ ہر بلوچ مورخ دیگر بلوچ مورخین سے اختلاف رکھتا ہے اور بعینہٖ انگریزوں کی طرح ان کا رشتہ عظیم حکمرانوں سے ملاتا ہے اور ہر مورخ انہیں باہر سے آنے والا گروہ قرار دیتا ہے۔ یہی شکوک و شبہات انگریزوں کی پیدا کردہ تھیں اور اسی نظریاتی اختلاف کو تاریخ پر وار کرنا کہتے ہیں۔ تاکہ ایک قوم اپنی سابقہ تاریخ کی تلاش میں ایسے سرگردان ہو جائے کہ وہ مستقبل کے بارے میں کبھی بھی نہ سوچ سکے اور آج یہی حالت بلوچ قوم اوربلوچ مورخین کی ہے ۔

            ان برطانوی جاسوسوں نے اولاً بلوچستان کی تاریخ کو یونانی دور تک قدیم بتایا اور اس کا معاشرتی ارتقائی سفر کا دورانیہ محدود کرنے کی کوشش کی مگر بعد ازاں خود انہی غیر ملکیوں نے بلوچستان کی قدیم اور حجری دور کی باقیات کا کھوج لگا کر بلوچستان کے معاشرتی ارتقائی سفر کو تقریباً 11 ہزار سال قدیم بتا کر نہ صرف یہ کہ دنیا کو ششدر وحیران کردیا بلکہ ابتدائی برطانوی نظریات کی بھی نفی کر دی ۔

            اس موضوع پرگذشتہ اوراق میں کی جانے والی بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ برطانوی جاسوسوں نے خود اپنے ملک کی قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور ایسے موضوعات پر تحریر کیا کہ جن کا انہیں اختیار حاصل نہیں تھا اور ان سے ایسے انسانی جرائم سرزد ہوئے کہ جن کی سزا انتہائی سنگین ہوتی ہے انہوں نے بلوچستان میں خانہ جنگی کی آگ بھڑکائی۔ ہزاروں انسان اس خانہ جنگی کی نذر ہوگئے۔ ہزاروں گھر برباد ہوئے۔ ایک قدیم قبائلی اور پرامن معاشرے میں دراڑیں پڑگئیں۔پورا ملک انارکیت کا شکار ہوا۔ ایک قومی حکمران کی حکمرانی پر غاصبانہ طور پر قبضہ کیا گیا۔ ایک ایسا ملک کہ جس نے کبھی بھی برطانیہ کے ساتھ کوئی تلخ کلامی تک نہیں کی تھی اسے اپنے قبضہ و تحویل میں لے لیا گیا۔ ایک آزاد اور خود مختار اور دنیا کی قدیم ترین تہذیب کے وارثوں کو وحشی، ڈاکو اور غیر مہذب کہا اور لکھا گیا۔ اس قدیم قوم کو کہ جو ہزاروں سالہ قدیم تاریخ کی حامل ہے، تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اور اپنے طور پر ان کا رشتہ مختلف خاندانوں سے بغیر تحقیق کے جوڑا گیا۔ حتیٰ کہ ہر طرح کی اخلاقی تہذیبی اور انسانی جرائم کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے ایسی غلط فہمیاں پھیلائیں کہ جن سے معاشرت سمیت تاریخ نویسی کے علم کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ انہوں نے من گھڑت اور فرضی دعوئوں اور نظریوں کا ایک ایسا جال پھیلایا کہ جس نے پوری بلوچ قوم کو طویل عرصہ تک اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ برطانیہ کی بلوچ قوم کی نسلی تاریخ کے متعلق نظریات کی پیروی کرنے کا یہ عالم تھا کہ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی جیسی قوم پرست اور ریڈیکل جماعت نے بھی رائولنسن کے بلوچ قوم کے متعلق پیش کردہ کلدانی نظریے سے اتفاق کیا اور تو اور کئی نامور بلوچ مورخین نے بھی رائولنسن کے نظریے کی پیروی کی۔ یقیناً اگر ان شاطر برطانویوں نے ایسی من گھڑت کہانیاں نہ بنائی ہوتیں اور اولاً یا تو اس موضوع پر خاموش رہتے یا پھر درست سمت میں تحقیق کرتے تو آج کا بلوچ مورخ بلوچوں کی نسلی تاریخ کی تلاش میں نہ تو سرگرداں ہوتا اور نہ ہی انگریز کا پیروکار۔

            اس تمام تر بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انگریزوں کی اس سازش نے ان کی فنِ تاریخ نویسی کی دانش کا یہ پول بھی کھول دیا کہ وہ بلوچستان کے بارے میں سب کچھ جا نتے تھے۔ اے ۔ ڈبلیو ہیوز کا بیان کردہ بلوچستان کا کل رقبہ اس کی واضح مثال ہے دراصل ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ ہر حوالے سے بلوچستان کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرکے نہ صرف اس کی تاریخ بلکہ جغرافیہ، معاشرہ، تہذیب، تمدن، حکمرانی، خودمختاری، آزادی سب کچھ تباہ کر دیا جائے۔ برطانوی جاسوس چونکہ کئی محاذوں پرکام کررہے تھے کچھ وہ جو ان کی حکومتوں نے انہیں تفویض کی تھیں اور کچھ وہ جن کو انہوں نے خود چنا تھا، لہٰذا کئی حوالوں سے ان کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل ہوئی اور کچھ مقاصد میں وہ ناکام رہے۔ وہ دین مسیح یہاں کے مسلمان بلوچوں میں پھیلانے میں ناکام ہوئے مگر ان کی زبان و ادب پر ان کا دائو مثبت پڑا۔ بلوچوں کو قومی بنیادوں پر یا نسلی حوالے سے تقسیم کرنے کا ان کا مذموم مقصد ناکام ہوا اور بلوچ قبائل نے ڈینس برے کی بلوچ براہوئی تقسیم کے نظریے کو رد کردیا مگر بلوچوں کے نسلی تقسیم، جغرافیائی حدود کی غلط بیانی، وغیرہ میں انہیں اس حد تک کامیابی ملی کہ مستقبل کا کوئی بھی بلوچ مورخ بلوچوں کی تاریخ اور جغرافیائی حدود کے نقطے پر متفق نہ ہوسکا۔

            اس سے قبل مورخین نے ہمیشہ برطانوی مقاصد اور اسکی توسیع پسندانہ پالیسی کو زیر نظر رکھا اور یہی ہمیشہ تحقیق کا عنوان رہا۔ مگر کسی نے برطانیہ کو اس مقام تک راستہ دکھانے والوں یعنی جاسوسوں کے مقاصد پر تحقیق نہیں کی کہ وہ کس طرح اپنے تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کرگئے تھے اور انتہائی نازک اور خطرناک موضوعات پر کام کررہے تھے کہ جن کے انتہائی تباہ کن اثرات پڑ سکتے تھے۔ ان جاسوسوں کی تحریروں نے نہ صرف یہ کہ برطانوی افواج کی راہنمائی کی بلکہ یہاں کے لوگوں کے لئے تباہی و بربادی اور شکستگی کا تحفہ بھی لے کر آئے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔