آہ! افغانستان – برزکوہی

699

آہ! افغانستان

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

قطر کے شہر دوحہ میں 29 فروری 2020 کو دو دہائیوں سے جاری امریکہ اور طالبان کے بیچ خونریز جنگ کے خاتمے کیلئے امن معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ یہ معاہدہ درجنوں سوالات، خدشات، تحفظات، توقعات اور خواہشات کو جنم دیکر ہر ایک کے دل و دماغ پر دستک دے رہا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ بالخصوص افغان قوم اور افغانستان کا کیا ہوگا؟

یہ معاہدہ آخر کیوں ہوا؟ جنگ بند کیوں ہوا؟ شروع کیوں ہوا تھا؟ امریکہ کے مفادات کیا تھے اور کیوں افغانستان پر چڑھائی کی گئی؟ امریکہ ابتک طالبان کا مکمل خاتمہ کیوں نہیں کرسکا؟ اس وقت تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کیا حاصل کیا ہے اور افغان و افغانستان کو کیا ملا؟ یہ جنگ کس نے ہارا، کس نے جیتا؟ چین، روس، پاکستان اور ایران کس حد تک طالبان کے حمایتی تھے یا ہیں؟ القائدہ اس وقت کہاں پر کھڑا ہے اور آگے چل کر کہاں پر ہوگا؟ سب سے زیادہ اس خون ریز جنگ میں کن کن کو جانی، مالی، معاشی، سیاسی، سفارتی، تجارتی حوالے سے نقصان اور کن کو فائدہ ہوا؟ اور اب بلآخر کیا ہوگا؟

لگ بھگ آج کل تمام عام لوگوں، صحافیوں، تجزیہ نگاروں، کالم نویسوں اور سیاستدانوں کے ذہنوں میں یہی سوالات و خدشات گردش کررہے ہیں، پھر ہر ایک کی اپنی سوچ و اپروچ یا اپنی انفارمیشن کی حد تک تجزیہ و رائے پیش ہورہے ہیں۔ لیکن اس تمام صورتحال میں میں بذات خود ایک جہدکار و ایک معمولی لکھاری کے باقی تمام چیزوں سے ہٹ کر ایک جگہ پر آکر انتہائی افسوس، تکلیف، عبرت اور سبق لیکر کھڑا ہوتا ہوں۔ وہ صرف افغان قوم اور افغان سرزمین ہے۔

ایک تاریخی قوم، ایک تاریخی سرزمین کے مالک ہوتے ہوئے، آج اس قوم کی حالت کو دیکھ کر افسوس اور تکلیف کے ساتھ ساتھ سبق و عبرت ضرور اس لیئے ہوتا ہے کہ ہم بلوچ آج کہاں کھڑے ہیں ؟ اگر ہمارے ساتھ کل ایساہی ہوگا، تو پھر ہماری حالت کیا ہوگی؟

گوکہ ہم بلوچ غلام ہیں، اس سے بدتر اور کیا لعنت ہوگی، مگر پوری دنیا میں ایک افغان قوم ہی ہوگا، جس کو ابھی تک خود سمجھ بھی نہیں آرہا ہے کہ بحثیت تاریخی سرزمین کے مالک، بحثیت ایک تاریخی قوم، ہم آزاد ہیں یا غلام ہیں۔ اگر آزاد ہیں تو کیسے آزاد ہیں، اگر غلام ہیں تو کس کے غلام ہیں؟ امریکہ، ایران، چین، روس یا پاکستان آخر کس کے؟

آخر افغان قوم کس مقررہ دن کو اپنی افغان سرزمین پر قبضے اور کس مقررہ دن کو اپنی قوم اور اپنی سرزمین کی آزادی کا دن تصور کرے؟

بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، جب روس نے افغان سرزمین پر قدم رکھا، کیا افغان قوم کی رضامندی تھی؟ جب مجاہدین اور طالبان کی شکل میں پاکستان و امریکہ نے افغان سرزمین پر یلغار کی تو کیا افغان قوم کی رضامندی تھی؟ پھر براہ راست 9 الیون کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان پہنچ گئے، کیا افغان قوم کی رضامندی تھی؟ اگر ابھی بھی 14 ماہ کے بعد امریکہ کا افغانستان سے مکمل انخلاء ہوگا، تو کیا افغان قوم کو کوئی پوچھے گا یا افغان قوم کی رضامندی شامل ہوگی؟

اس کے بعد بدبخت افغان کا مستقبل، مقدر اور تقدیر کس قوت، کس ملک، کس قوم کے ہاتھ میں ہوگا، وہ قبل ازقت ہے اور سوالیہ نشان ہے؟ مگر اہم سوال یہ ہے کہ بحثیت ایک تاریخی قوم، اس سطح پر کیوں کھڑے ہیں یا اس نہج پر کیوں پہنچ چکے ہیں؟ اس کے بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ یعنی ایک قوم کا ماضی، حال اور اسکے مستقبل کے فیصلے، جینے کا بنیادی حق اس کے ہاتھ میں نہ ہو؟

تو ہم برملا کہتے ہیں افغان لیڈر شپ کی نالائقی، کمزوری، بے شعوری، ضد، انا، ہٹ دھرمی، ایک دوسرے کیلئے عدم برداشت، جنگی منافع خوری، کرپشن، ادراک و دوراندیشی کا فقدان اور ساتھ ساتھ افغان قوم کے نوجوانوں میں بے حسی، بیگانگی، بے شعوری اور خواب غفلت میں غلطان ہونا اسکے وجوہات ہیں۔ ان متذکرہ سیاسی، اخلاقی، قومی اور سماجی امراض اور رویوں سے پھر سینکڑوں چھوٹے موٹے امراض و رویے جنم لے چکے ہیں یا لے رہے ہیں، جو افغان قوم کو ابھی تک ایک حقیقی قوم اور حقیقی ریاست بننے نہیں دے رہے ہیں۔ اور اس کی سزا پوری افغان قوم آج تک بھگت رہی ہے اور آگے بھی بگھتتی رہے گی۔

جب قوموں کی لیڈرشپ کی قومی خوداری ختم ہو، وہ قومی نمائندہ و لیڈر کے شکل میں کسی قوت کے ایجنٹ ہوں، نمائندہ اور لیڈر کے تقاضات پر پورا نہ اتریں، صرف جنگی و سیاسی منافع خوری کے تگ و دو میں ہوں، قوم کے نوجوان بھیڑ بکریوں کی طرح چند ٹکڑوں پر خوش ہوکر جنگی و سیاسی منافع خور لیڈروں کے دم چھلہ ہوں، قوم کے دانشور و قلم کار لالچ و خوف کے سائے میں سچ کہنے اور سچ لکھنے سے گبھراہٹ کا شکار ہوں، پورا سماج اور قوم ابھی تک فرسودہ سماجی و سیاسی روایات و رویوں کا غلام ہو، اپنے حال میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف جانوروں کی طرح کھاتا پیتا اور سوتا ہو، صرف اور صرف اپنے ماضی پر فخر کرتا ہو اور مستقبل کے بارے میں سوچنا سمجھنا، بیگانہ ہوکر اندھا و بہرہ ہونا، پھر اس قوم کو زوال و بربادی سے توبہ نعوذ بلا خدا بھی نہیں بچا سکتا ہے۔

آج ہمیں بحثیت غلام و محکوم بلوچ قوم، افغان قوم کے ساتھ برادر و ہمسایہ قوم ہونے کے ناطے ہزاروں ہمدردیوں و پر مہر احساسات کے باوجود ترس کھانے کے بجائے ایک سبق و عبرت حاصل کرنا ہوگا۔ تاریخ کے کتابوں کو جھنجھوڑنے کے بجائے بلوچوں کے لیئے افغان قوم اور افغان سرزمین کی گذشتہ 40 سال کا دور خود ایک جیتا جاگتا تاریخ و سبق ہے۔

بلوچ بالکل اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔ یہ ہمارا اور ہر جہدکار کا ایمان ہے، اس دفعہ یہ آخری اور جاری جنگ ہوگی، قومی منزل کے حصول تک، مگر پھر بھی یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ دوران قومی آزادی و نجات کے جدوجہد کے، قیادت سے لیکر تمام جہدکاروں تک، نظریہ و فکر، محنت و مشقت، قربانی، جذبہ، خلوص اپنی جگہ سوچ و اپروچ کی سطح اور زاویہ نظر اور نقطہ نظر کیسا ہے؟ یعنی چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے ساتھ یہ منطق بالکل مستند ہے کہ ہمارے آج کے جدوجہد میں دستیاب منفی و مثبت رویے خصلت و اعمال، قومی و قومی ریاست کے تشکیل پر براہ راست اثر انداز ہونگے، ہمارے آج کا قومی جدوجہد ہمارے کل کے قومی ریاست کا تصویر ہی ہوگا۔

اگر کہا جاتا ہے کہ جنگ قوموں کی تشکیل و تربیت کرتا ہے، بالکل پھر کیا افغان قوم نے کبھی جنگ نہیں لڑی ہے یا جنگ سے نہیں گذرے ہیں؟ پھر آج افغان قوم کہاں پر کھڑا ہے؟

سطحی سوچ کے ساتھ منفی انا، ضد، ہٹ دھرمی، گھمنڈ و غرور، جھوٹ و فریب، عقل کل و عقل سلیم والی سوچ، عوام سے خود کو بڑھکر ان کو حقیر سمجھ کر عوام سے دہشت کے ذریعے ہمدردی حاصل کرنا، بے لگام و خود سر انداز میں تحریک و جدوجہد کے نام پر چوری، بھتہ خوری، ڈاکہ زنی، لوٹ مار، غنڈہ گردی، بدمعاشی، کرپشن، خود غرضی کے علاوہ اگر جدوجہد میں جگاڑ، بے ترتیب، غیر اصولی، سستی، کاہلی، غیر ذمہ داری و لاپرواہی، حسد، بغض، بدنیتی، آزاد خیالی وغیرہ کے ساتھ بھی جدوجہد جاری ہو، تو وہ جنگ کبھی بھی قوم کی تشکیل و ذہنی و فکری تربیت کا ذریعہ ثابت نہیں ہوگا۔ حتیٰ کہ خدا کرے ایسی جدوجہد سے اگر منزل مقصود حاصل ہو بھی، مگر ریاست اور قوم کی شکل پھر کیا ہوگی؟ وہی ہوگی جو آج ہم افغان قوم اور افغان ریاست کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔

آج افغان قوم کی تاریخ، جغرافیائی حیثیت، بہادری، عظمت و غیرت سے انکار ممکن نہیں، مگر آج افغان جنگی و سیاسی قیادت کی اپروچ و سوچ کی سطح اور نقطہ نظر اور زاویہ نظر، چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے، سماجی و سیاسی اور جنگی رویے و مزاج کا چہرہ کیا ہے؟ سب سے ضروری عوامل یہی ہوتے ہیں، اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔