پاکستانی ادارے اپنے ہی آئین کو پامال کرکے انسانی حقوق سلب کررہے ہیں – ہَکپان

222

ہیومن رائیٹس کونسل آف بلوچستان (ہَکپان) کے چیئرپرسن بی بی گل نے بی ایم سی کے مسائل، بلوچستاں میں گذشتہ سال انسانی حقوق کی پامالیوں اور بی ایچ آر او اور ایچ آر سی بی کے انظام کے مطلق کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کی۔

بی بی گل بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے عوام گذشتہ دو دہائیوں سے ایک کربناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سیکیورٹی فورسز دن دھاڑے دیہی آبادیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، گاوں کے گاوں جلائے جارہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو غائب کیا جارہا ہے۔ آئے روز تشدد زدہ لاشیں برآمد ہورہی ہیں، جن کو شناخت کیئے بغیر دفنایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاستی ادارے یہ سب کرکے انسانی حقوق کے ان تمام معاہدات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جنہیں پاکستان نے بحیثیت ریاست نہ صرف تسلیم کرلیا ہے بلکہ انہیں اپنی ملکی آئین کا بھی حصہ بنا لیا ہے اور اس طرح سے ان تمام معاہدات کا پابند بھی ہے۔

بی بی گل بلوچ نے کہا کہ گذشتہ دنوں بی ایم سی کے طلبا و طالبات اور ملازمین کے پر امن احتجاج پر پولیس کا حملہ اور خواتین کی گرفتاری اس ظلم و جبر کی انتہا ہے۔ یہ ایک انتہائی شرمناک عمل ہے کہ طلبا و ملازمین کے آئینی و جائز مطالبات پر غور کرنے کی بجائے ان کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہی کچھ پی ٹی ایم کی پر امن تحریک کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ ہم بی ایم سی طالبات اور پی ٹی ایم رہنما و کارکنوں کی گرفتاریوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال روز بروز بدتر ہوتی جارہی ہے۔

بی بی گل بلوچ نے بلوچستان میں انسانی حقوق کے پامالیوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال 2019 میں فرنٹئیر کور اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ہاتھوں بلوچستان سے 568 لوگ لاپتہ کیئے گئے جن کی زندگی و موت کا ان کے خاندان کو تاحال کوئی علم نہیں۔ 241 لوگ فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کیئے گئے۔ بلوچستان ایک سنگین انسانی بحران کا شکار ہے۔ لاکھوں لوگ در بدر کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات سے شدید صدمہ پہنچا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے معزز سکریٹری جنرل، جناب انتونیو گُٹریس اپنے دورہ پاکستان کے دوران اس سنگین انسانی المیہ کو نظر انداز کر گئے۔ حالانکہ ہم اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے تمام اداروں اور کمیٹیز کو وقتاَ فوقتاَ بلوچستان کی صورتحال سے آگاہ کرتے آرہے ہیں۔

ان کا کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کے معصوم شہری اگر دنیا کے بااختیار اداروں کی جانب سے یونہی نظرانداز کیئے جاتے رہے تو خدشہ ہے کہ نوجوان زیادہ زیادہ شدت پسندی کی جانب مبذول ہونگے۔ ہم تقریباَ ایک دہائی سے انسانی حقوق کی ان تمام پامالیوں پر آواز بلند کرتے آرہے ہیں۔ ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ جمہوری و آئینی جدوجہد کے ذریعے ان تمام پامالیوں کو روکا جاسکے۔

بی بی گل بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم نے بی ایچ آر او کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد کا آغاز 2011 میں کیا تھا۔ اس دوران انسانی حقوق کی اس جدوجہد میں ہمارے بہت سے ساتھی ریاستی اداروں کی جانب سے اغواء ہوئے، ان میں سے بہت لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں، جن میں ہمارے انفارمیشن سکریٹری نواز عطا بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2016 سے آج تک بی ایچ آر او اور ہیومن رائیٹس کونسل آف بلوچستان کے مابین ایک اشتراک عمل موجود رہا ہے۔ اس دوران ہم گمشدہ افراد کے کوائف اکٹھے جمع کرتے تھے، واقعات کی تحقیق اور رپورٹنگ اکٹھے کرتے تھے۔ اس چار سال کے اشتراکِ عمل کے بعد بی ایچ آر او اور ایچ آر سی بی کے دوستوں کے ایک مشترکہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ دو تنظیمیں انضام کرکے ایک ہی پلیٹ فارم سے انسانی حقوق کے اس مقدس جدوجہد کو آگے بڑھائیں لہٰذا آج سے بی ایچ آر او اور ایچ آر سی بی کو ضم تصور کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری یہ جدوجہد ہیومن رائیٹس کونسل آف بلوچستان کے نام سے جاری رکھی جائیگی، جس کا نام ملک میں حقپان ہوگا، جس کا مطلب ہیومن رائیٹس ڈیفنڈَر ہے اس تنظیم کی ایک عبوری کابینہ تشکیل دی گئی ہے جس کے مطابق، میں، بی بی گل چئیرپرسن، تاج بلوچ کوآرڈینیٹر، لطیف جوہر ڈپٹی کوآرڈینیٹر، عبداللہ عباس انفارمیشن سکریٹری و ترجمان اور مالک بلوچ منتظم ہونگے۔ یہ عبوری کابینہ تین سے چھ مہینے کے عرصے میں ادارے کے گوَرننگ باڈی کا چناو کرے گی جس کے بعد گوَرننگ باڈی ہی ادارے کے مستقل کابینہ کا چناو کرے گی۔