وی سی اور گورنر نے بولان میڈیکل یونیورسٹی کو یرغمال بنایا ہے – طلباء

215

بولان میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے گذشتہ دنوں احتجاج کیا جارہا ہے جبکہ گذشتہ روز پولیس کی جانب مظاہرین پر لاٹھی چارج کرنے کا واقعہ بھی پیش آیا۔ واقعے کے خلاف بولان میڈیکل یونیورسٹی کے طلباء نے آج کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کیا۔

طلباء نے مسائل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب سے بولان میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اور ادارہ چند نا اہل لوگوں کے حوالے کیا گیا تو طلبا کو آئے دن سڑکوں پہ آنا پڑ رہا ہے، پچھلے ایک سال سے ادارہ بیشتر وقت بند رہا ہے، نہ امتحانات وقت پہ ہوئے ہیں نا ہی تعلیمی ماحول پر توجہ دیا گیا۔ سسٹم کو بحال کرنے کے نام ایک ادارے مکمل تباہ کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہ 2019 میں طلباء کے کلاسز سال کے چھٹے مہینے شروع ہوئے مگر اس کے فوراً بعد ہاسٹل کو ری الاٹمنٹ کے بہانے 2 ماہ تک بند رکھا گیا اور یہ مسئلہ اس لئے بنایا گیا کہ ادارہ طلباء کے لیے مختص پرائیویٹ ہاسٹل کے خرچے پورے کرنے سے قاصر ہے، آٹھ ہاسٹل میں سے 4 ہاسٹلز کو بند کیا گیا اور طلباء کو کسمپرسی کی حالت میں گزارہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پورے سال طلباء کی کی سکالرشپ بند رکھی گئی اور جب طلباء نے جواب چاہا تو صرف ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں اسکالرشپ 6000 سے کم کرکے 3000 کرنے اور محض ان طلباء کو دینے کا کہا گیا جو مستحق ہے جس کا فیصلہ بھی ادارہ کرے گا اس کے بعد طلباء کی فیس 10 ہزار سے بڑھا کر 88 ہزار کردی گئی اور ہاسٹل فیس 5000 سے بڑھا کر 26000 کردی گئی جبکہ بی ایم سی کے پی ایم ڈی سی سے مختص سیٹوں میں سے 40 سیلف فائیننس کی سیٹوں کا بھی اعلان کیا گیا۔

رہنماوں کا کہنا تھا کہ ان تمام مسائل کے حوالے صوبائی حکومت کے ہر رکن کو اطلاع دی گئی، طلباء کئی دفعہ سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آئے مگر حکومتی ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔ وی سی اور گورنر نے ادارے کو مکمل یرغمال بنایا ہوا ہے گذشتہ روز بھی طلباء جب احتجاج کررہے تھے تو وی سے نے پولیس اہلکاروں کو طلباء پر تشدد کا حکم دیا اور پولیس اہلکاروں نے طلباء پر تشدد کیا، اس سے پہلے بھی انہوں نے یہ حربہ خواتین ہاوس آفیسر کے ساتھ اپنایا جنہیں اے سی ندا کاظمی کے ذریعے زد کوب کیا گیا اور ہاسٹل سے باہر پھینکا گیا لیکن اس عمل پر پشیمان ہونے کے بجائے گذشتہ روز بھی وہی رویہ دوبارہ دوہرایا گیا، طلباء پر پولیس کے ہاتھوں تشدد کروایا گیا، طلباء کو اس طرح کے ذہنی اذیت میں مبتلاء کرنے بعد ان پر جسمانی تشدد کرنا قانوناً جرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے نا امید ہو چکے ہے، صوبہ بھر میں چند ہی ادارے ہیں اگر ان پر بھی سرمایہ کاری کی جائے گی تو بلوچستان کے طلباء کہاں جائیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ہر آنے والا حکمران یہی کہتا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ نا انصافی ہوئی مگر یہ کہنے کے بعد بدترین رویے اپنائے جاتے ہیں، ایک ادارے کا تباہ ہونا پورے صوبے کی تعلیمی نظام کے تباہی کے برعکس ہے، حکومت بلوچستان و حکومت پاکستان کو بلوچستان کی تعلیمی صورت حال پر حقیقی توجہ دینی ہوگی وگرنہ صورت حال مزید بدتر ہوجائے گی جو کہ حل کرنے سے رہ جائے گا۔