وعدہ وفا – دروشم بلوچ

349

وعدہ وفا

تحریر: دروشم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تم جب یہاں سے اس رات کے اندھیرے میں میرے سر پر ہاتھ رکھ کر شفقت کا بوسہ دے کر چلے گئے، اور طویل دوری کے بعد تم سے ملنے تمہارے جھلک دیکھنے کا موقع میسر ہوا، سرد رات میں جب پچھلے دروازے سے چوڑا سینہ لیئے بندوق اور دستار کے ساتھ تم میری طرف بڑھ رہے تھے، میں سمجھ گیا تم ہو، تم سے روبرو ہوکر میں کتنی خوش ہوگئی، اس طویل جدائی کے بعد آج تم کو سامنے دیکھ کر تم سے دنیا بھر کی گفتگو کرنے تھے، تم سے ہزاروں سوال، جواب طلب تھے۔ ہم سے دور گذری زندگی سے روشناس ہونے کی خواہش تھی، تمہارے دیدار سے پیاسے آنکھوں کو سیراب کرنے تھے –

اس طویل جدائی کے بعد جب تم مجھ سے ملنے آئے تھے، میں نے تمہیں ایک دوست، ایک بھائی کے بجائے تم میں ایک زمہ دار اور بے تحاشہ زندگی سے بے غرض شخص پایا، میں تم میں چلتن، بولان، شور سمائے ہوئے دیکھ پارہی تھی، تمھارے سادے کپڑے، مٹی سے اٹے جوتے اور خشک ہونٹ، شاید کسی بہن کے لئے اپنے بھائی کو اس حالات میں دیکھنا تکلیف دہ ہوگا لیکن جس پرسکون چہرے کے ساتھ تم تھے، ان سب کے پیچھے تم اس مقصد کو لیئے مطمئن دکھائی دے رہے تھے، تم وہ دوری، وہ خواریاں بہت پہلے قبول کرچکے تھے اور اس مطمئین مسکراہٹ کے ساتھ مجھے بھی پرسکون کرنا چاہ رہے تھے-

تم وعدہ وفا گر ہو، جب اس رات تم نے پھر سے جانے اور اپنے مقصد، اپنے محاذ کے طرف لوٹنے کی خاطر مجھ سے رخصت کی اور میں نے تمھارا جھاٹہ اور بندوق تمھیں اپنے ہاتھوں سے تھمائی تو مجھے یہ بوجھ جو تم نے میرے لئے اس قوم کے لئے اٹھایا تھا، بہت بھاری لگا، میں نے تم سے سوال کیا، بھائی اتنے بوجھ کے ساتھ تم ان پتھریلی پہاڑوں میں کیسے گذر بسر کرتے ہو، جب تم نے مجھے بتایا تھا کے کیسے ہر آپریشن کے بعد تم شدید بھوک اور پیاس میں میلوں سفر کرکے ٹھکانے بدلتے ہو تو کیا یہ بوجھ تمھیں تنگ نہیں کرتا، تمہاری ہر لاڈ ہم سر آنکھوں پر رکھتے، آج تم اس قدر بوجھ کے ساتھ اور بغیر پشیمانی کے دیوانہ وار چل پڑتے ہو اس کی وجہ کیا ہے –

تم وعدہ وفا کرگئے، جب تم نے کہا تھا چھوٹی جب میں اگلی مرتبہ لوٹوں گا تب میں تمھارے ہر سوال کا جواب دونگا، پھر طویل انتظار، بہار، بارش، خزاں ہر موسم آکر گذر گیا، کتنی طویل جدائی ہے، شور پارود میں دشمن کی جانب سے آگ برسائے جارہے ہیں، تم اپنے وعدے پر ڈٹے رہنا، تم نے پھر سے ملنے کا وعدہ کیا ہے، تم تو قول و فکر کے پیغمبر تھے، چاہے زمین و آسمان ایک کردیں، تمھیں اپنے وعدے کے مطابق لوٹنا ہے اور یقین تھا تم لوٹوگے میرے ہر سوال کا جواب دینے –

تم وعدہ وفا کرگئے، جب گزان کے کھلی میدان میں، جب میں تم سے ملی، میں نے ہر سوال کا جواب پایا، تمہارے خوبصورت داڑھی کے نیچے ایک تیر پیوست تھی، جو ہلک سے ہوتے ہوئے تمہارے سر کے دوسرے طرف سے نکل گئی تھی اور میں روبرو بیٹھ کر تمہارے پرسکون چہرے سے ایک کرکے اپنے جوابات لے رہی تھی، تم نے جو تیر خود میں پیوست کی تھی وہ میرے ہر سوال کا جواب تھا، میرے وجود کا، میرے مقصد کا، جواب کہ جب مقصد حسین ہو، نظریہ پختہ ہو، جب اپنوں کے لئے کچھ کرنے کی ٹھان لی جائے تو زندگی بھی قربان کرنے کے لئے بہت چھوٹی شے ہوتی ہے –

تمہارے طویل جدائی کے بعد ایک اور جدائی بھی میں نے قبول کرلی، ہاں مجھے قبول ہے تم اس مقصد کے لئے سب کچھ قربان کرنے پر تلے تھے اور کردیا لیکن جس مقصد پر تم کاربند تھے، اسے زندہ تابندہ دیکھ کر یقین ہو چلتا ہے تم کہیں نہیں گئے تم ہر شکل میں تربیت کررہے ہو، تمہارے وہ دوست، وہ ہمسفر، جب شور سے زہری، خضدار سے حب عمل کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں، انکے دیوان میں تمھارا ذکر ہوتا ہے، تو یقین پختہ ہو چلتا ہے وہ جو بوجھ تھا، وہ اسی خوبصورت بعد والے زندگی کے لئے تھی، مجھے نا کوئی افسوس ہے، نا پشیمانی، تم نے جو کئی بھائی پیدا کیئے، کئی دلجان بنائے، وہ سب ضیاء کے صورت میں موجود ہیں اور ان سب میں تم موجود ہو-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔