دودا انسان نہیں کردار کا نام ہے – باگانی

678

دودا انسان نہیں کردار کا نام ہے

تحریر: باگانی

دی بلوچستان پوسٹ

داں کہ پہ سمی ءَ پیداک نہ بیت دودا یے
پہ تی دودا ءَ کدی بیر گریں بالاچ نہ بیت

کیا دودا ایک انسان ہے؟ کیا دودا اشرف المخلوقات کی طرح زندگی گذار کر مرنے والے ایک بنی نوح کا نام ہے؟ کیا دودا تلوار کی ایک دھار اور بندوق کی ایک تیر سے جہاںِ فانی سے کوچ کرکے ہمیشہ کیلئے قبر میں دفن ہو جانے والا شخص کا نام ہے؟ اور ایک ایسا شخص جس سے پھر واپس آنے کی امیدیں ختم ہو جاتی ہیں؟ آؤ آج دودا سے ملتے ہیں۔

یہ کہانی تقریباً آج سے پانچ سو سال پہلے کی ہے، سمی نامی ایک خاتون جو پیشے کے لحاظ سے ایک مال و مویشی پالنے والی مالدار خاتون تھی، سمی اُس وقت کے بلوچ قبیلے بلیدئی کے سربراہ بیورغ کے علاقے میں قیام پذیر تھی اور اپنے پیشے کا کام کرتی تھی۔ سمی نے کچھ وقت بعد سردار بیورغ سے اپنے مال مویشیوں کو محفوظ نہیں گردانا اور بیورغ سے خطرہ محسوس کرنے لگی اور میر دودا گورگیج کے پاس پہنچی، دودا نے بلوچی روایات کا پاس رکھتے ہوئے ایک خاتون کو بلوچی رسم و رواج اور روایات کے تحت سردار بیورغ کی غیض و غضب سے بچانے کیلئے اپنے ہاں پناہ دی، دودا چونکہ افرادی قوت سے لیکر کسی بھی طرح سردار بیورغ کے مقابلے میں بہت ہی کم طاقت و ریخت کا مالک تھا لیکن اس وقت دودا نے کچھ نہیں سوچا اپنی کم قوت اور چھوٹے پیمانے کی طاقت کا بھی لحاظ نہیں رکھا کیونکہ اس وقت دودا کیلئے کوئی طاقت، خاندان، قبیلہ، رشتے و ناطے اہمیت کے حامل نہیں تھے بلکہ دودا کو اس وقت احساس تھا تو اپنی ہزاروں سالوں پر مبنی رسم و رواج اور روایات اور ثقافت کا، دودا انکار کر سکتا تھا اپنی کم طاقت کا بہانا بناکر سمی سے معذرت کر سکتا تھا، اپنے چھوٹے پیمانے کے طاقت کو ملحوظ خاطر رکھ کر سمی کو اجازت دے سکتا تھا کیونکہ رشتے اور ناطے میں بھی سمی اس کا کچھ نہیں لگتا تھا لیکن دودا ذات سے بڑھ کر سوچنے والوں میں سے تھا۔

اس وقت دودا کے سامنے دو راستے تھے، ہزاروں بہانہ بناکر جو آج کی موجودہ دور میں ہر کوئی بناتا ہے، سمی کو رخصت کر سکتا تھا اور اپنے خاندان، رشتے اور ناطے اور قبیلے کے ساتھ ایک اچھی زندگی بسر کر سکتا تھا جبکہ دوسرا راستہ سمی کو بلوچی روایات کے مطابق پناہ دے کر اس کی عزت و نفس کو مجروع ہونے سے بچاکر اس خاتون کو بیورغ کے غیض و غضب سے بچانے کی خاطر بیورغ سے دشمنی موڑ لینا تھا اور بلوچ تاریخ، رسم و رواج، تقافت اور باہوٹ کے تاریخی بلوچی روایات کو زندہ رکھنے کا اعلیٰ و ارفع عمل تھا۔ دودا نے بہانہ بنانے کے بجائے سمی کو اپنے حصار میں پناہ دی۔

جب بیورغ کو سمی کی بھاگ جانے کی خبر ہوئی تو ایک بڑے لشکر کے ساتھ بیورغ نے دودا کے علاقے میں جاکر سمی کے مال مویشیوں کو لوٹ کر اپنے ساتھ لے آیا، یہ دودا کی شادی کا پہلا دن تھا، دودا سویا ہوا تھا کہ اُس کی ماں نے اُس کو جگہ کر کہا
اباآں مڑو کہ دار انت باہوٹ آں
نیم روش آں نہ ریشنت چون دھاو آں
ترجمہ “بیٹے جو جواں مرد کسی کو پناہ دیتے ہیں، وہ یوں دن کے وقت نیند کی مدہوشی میں نہیں کھو جاتے۔”

ماں دودا سے مخاطب ہوکر کہتی ہے، میں نے تجھے پورے نو ماہ پیٹ میں رکھا پھر تجھے دودھ پلاتی رہی، آج اگر تم نے اگر اپنے باہوٹ یعنی سمی کے مال مویشی واپس نہ لائے تو کبھی تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی۔

دودا کے ہاتھوں میں شادی کی مہندی لگی ہوتی ہے، دودا اٹھ کر اکیلا بیورغ کا مقابلہ کرنے کیلئے نکل لیتا ہے کیونکہ بات دودا کی عزت اور بلوچی روایات کی تھی، دودا اکیلا مرد آہن کی طرح ایک بڑی لشکر کا مقابلہ کرنے کیلئے نکلتے ہیں، اور راستے میں اُن سے اپنے باہوٹ کی مال مویشیوں کی حفاظت کی خاطر لڑ کر شہادت حاصل کرتے ہیں اور اپنی ماں کے دودھ کا لاج رکھ لیتے ہیں۔

آج پانچ سو سال بعد دودا کی زمین پر اغیار(پاکستان) جبری قبضہ کرتے ہیں، یہ جابر بلوچی روایات کو پا مال کرتے ہوئے بلوچ خواتین کو آئے دن بے آبرو کرتے رہتے ہیں، اس قابض کی وحشی درندے دودا کی زمین کو چاروں طرف گھیرے میں لیتے ہیں، یہاں کی مال و مڈی یہاں کے ساحل و وسائل کو بےدریغ سے لوٹنا شروع کر دیتے ہیں، تو دودا پھر کسی بلوچ ماں کے پیٹ سے جنم لیتا ہے، جس کو ماں باپ یوسف کا نام دیتے ہیں، جوان عمری میں جب اس کی داڑھی نہیں نکلی ہوتی ہے، جب اس کے عمر کے بچے اسکول اور دیگر جگہوں میں پڑھ رہے ہوتے یا کھیل کود کی زندگی میں مشغول ہوتے ہیں، جب دودا رشتے اور ناطے سے جڑا ہوتا ہے تو ان مشاغل میں رہنے کے بجائے وطن کی دفاع میں پہاڑوں کا رخ کرتا ہے کیونکہ دودا تو بلوچی روایات کا نام ہے، دودا اپنے زمین و ساحل و وسائل کی دفاع میں شہید ہونے والے کردار کا نام ہے، دودا وطن اور مٹی کی دفاع میں لڑنے والے سرمچار کا نام ہے، دودا ایک بڑی طاقت و لشکر ایک بڑی قوت کے سامنے تن تنہا لڑنے والے اُس عظیم دلیر بہادر جانباز اور جواں مرد عمل کا نام ہے، جو بنا کسی خوف و خطر بنا کسی ذاتی خواہش و حسرت کے اپنی زمین اور روایات کے دفاع میں اپنے سے کئی گنا بڑی قوت سے لڑتا اور مرتا ہے لیکن اپنے ذاتی زندگی، رشتے و ناطے، خاندان اور لوگوں کی وجہ سے اپنے فرض سے غافل نہیں ہوتا ہے۔

پانچ سو سال پہلے بھی جب دودا بلوچی روایات کی پاس داری میں بیورغ سے مقابلے کرنے کیلئے روانہ ہو رہا تھا تو اس کے ہاتھوں میں مہندی تھی، اس کے پیچھے اس کا شریک حیات تھا، اُن کے خاندان اور قبیلے کے لوگ تھے اور آج بھی جب دودا اپنے ماں کے دفاع میں، اپنے وطن کی مٹی کی دفاع میں اغیار سے مدمقابل تھا تو اس کے ہاتھوں میں مہندی کے نشان تھے، وہ نیا نیا دولہا بنا تھا، جب بہادری اور ہمت کے ساتھ دودا نے سمی کی مال مویشیوں کی خاطر اپنے باہوٹ کی عزت کی خاطر لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی، یہی دودا آج ایک مرتبہ پھر ظالم اور جابر وقت سے اپنے زمین، رسم و رواج، تاریخ و ثقافت، تہذیب و تمدن کو بچانے کیلئے ہاتھوں میں مہندی سجائے ہوئے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگیا۔

دودا بلوچ روایات اور تاریخ کو بچانے کیلئے لڑنے والے کردار کا نام ہے اور کردار کبھی بھی کسی بھی طاقت جبر ظلم اور ناانصافی سے مٹتا نہیں ہے، دودا مرا نہیں ہے بلکہ دودا مر ہی نہیں سکتا، جب تک بلوچ زمین محفوظ نہیں جب تک اس سرزمین کے ساحل و وسائل محفوظ نہیں، جب تک بلوچ روایات خطروں کے شکار ہیں، جب تک بلوچ ماں اور بہنیں غیر محفوظ ہیں، دودا جنم لیتا اور یلغار کے خلاف لڑتا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔