بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز انتظامیہ نے طلباء و ملازمین کے الزامات کو مسترد کردیا

536

بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کوئٹہ کے ترجمان نے اپنے ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ کچھ عرصے سے چند ملازمین اور سٹوڈنٹس نے اپنے مطالبات کے سلسلے میں احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہوا ھے جو بلا جواز ہے۔

سٹوڈنٹس کے مطالبات میں سکالرشپ میں اضافہ، فیسوں میں کمی اور یونیورسٹی میں سیلف فنانس سیٹوں کی مخالفت شامل ہیں، ملازمین کا مطالبہ بولان میڈیکل کالج کی بحالی اور ملازمین کے پینشن سے متعلق ہے۔

ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سٹوڈنٹس کا دعوی درست نہیں ہے کہ سٹوڈنٹس سکالرشپس چھ ہزار ( 6000) روپے سے کم کر کے تین ہزار (3000) روپے کی گئی ھے۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ بولان یونیورسٹی کو فنڈز فنانس ڈیپارٹمنٹ حکومت بلوچستان سے ملتی ہیں اور چونکہ رواں مالی سال کے لیے سکالرشپس اور مختلف دیگر مد میں مکمل فنڈز یونیورسٹی کو منتقل نہیں کئے گئے ہیں لہذا یونیورسٹی انتظا میہ نے ایک کلاس کے طلبہ و طالبات جواندرون ملک سٹڈی ٹور پر جا رہے تھے  انکی مالی مشکلات کو دیکھتے ہوئے وقتی طور پر دوسرے مد سے ان کو سکا لرشپ کے طور پر ابتدائی چھ ماہ کیلئے تین تین ہزار روپے کے حساب سے ادائیگی کی جبکہ بقیہ رقم کی ادائیگی فنانس ڈپارٹمنٹ حکومت بلوچستان سے فنڈز کی یونیورسٹی منتقلی کے بعد کی جائیگی۔

یونیورسٹی کے ترجمان نےفیسوں میں اضافے سے متعلق سٹوڈنٹس کی طرف سے میڈیا پر پیش کئے گئےغلط اعداد و شمار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن(HEC) اور فنانس ڈیپارٹمنٹ حکومت بلوچستان دونوں نے یہ کہا تھا کہ بولان یونیورسٹی دیگر یونیورسٹیز کی طرز پر اپنی آمدن میں اضافہ کرے جس کے بعد یونیورسٹی کے سینیٹ نے ملک اور بلوچستان کی دیگر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی فیسوں کے سٹرکچر کو سامنے رکھتے ہوئےصرف اتنا اضافہ کیا کہ اب بھی بولان یونیورسٹی کی فیسیں ملک کی کئی پبلک سیکٹر میڈیکل یونیورسٹیوں اور بلوچستان میں عام یونیورسٹیوں کی فیسوں سے قدرےکم ہیں’ باوجود یہ کہ بولان میڈیکل یونیورسٹی ایک پروفیشنل یونیورسٹی ہے۔

ترجمان نے یونیورسٹی میں سینیٹ کی طرف سےمختص سیلف فنانس سیٹوں کے حوالے سے خدشات و اعتراضات کی وضاحت کرتے ہوئےکہا ہے کہ یونیورسٹی کے سینیٹ نے کئی وجوھات کی بناء پر ان سیٹوں کا آغاز کیا۔
۱۔ اول یہ کہ سیلف فنانس کی سیٹیںPMDC کی مروجہ پالیسی کے تحت ملک کے تمام صوبوں کی پبلک سیکٹرمیڈیکل یونیورسیٹیوں میں کافی پہلے سے “یونیورسٹی ایجوکیشنل ڈیویلپمنٹ پروگرام ای یو ڈی پی کےتحت موجود ہیں۔
۲- دوئم یہ سیٹییں یونیورسٹی اور کالجز کی ریگولر سیٹس کے علاوہ ھیں۔ یہ سیٹیں کسی بھی دوسری کیٹگری مثلاً ضلعی’ ڈویژنل اور دیگر کیٹگریز سے بلکل ہٹ کر ان کے علاوہ ہیں۔اور یہ کسی دوسری کیٹگری میں تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔
۳- سوئم یہ کہ PMDC کی 2019-20 کی پالیسی کے مطابق بلوچستان کے طالبعلموں کی بہت بڑی اکثریت کے لیے ملک کے دیگرمیڈیکل اور ڈینٹل پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیوں میں داخلوں کے راستے بلکل محدود ہو گئے اور بلوچستان میں کویی بھی پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل ادارہ نہیں جہاں طلبہ و طالبات کومیڈیکل اور ڈینٹل تعلیم کے مواقع میسر آ سکیں۔ لہذا صوبے کے طلبہ و طالبات مجبوراً والدین اور گھروں سے دور بھاری اخراجات کے عوض دیگر صوبوں میں جانے پر مجبور تھے۔
۴- چہارم صوبائی حکومت اور ھائر ایجوکیشن کمیشن میں مالی بحران کی وجہ سے یونیورسیٹیز کی فنڈنگ میں کمی کی وجہ سے یونیورسٹی کے لیے طرح طرح کی مشکلات کا پیش آنا۔مثلاً طلبہ و طالبات کی سکالرشپس اورغریب و مستحق طلبہ وطالبات کی فیسوں کے مسائل’ ھاسٹلوں کے مسائل’ ملازموں کے مختلف مسائل۔
ملازمین کے مطالبات کے حوالے سے

ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹی کے قانون BUMHS Act 2017 کے تحت تمام ملازمین کےیونیورسٹی بننے سے پہلےسےحاصل ان کے تمام حقوق مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ بلکہ یونیورسٹی میں ان کو بعض اضافی مراعات بھی حاصل ھو نگے۔
حا لیہ دنوں میں ریٹائر ہونے والےاور فوت ہونے والےملازمین کے پینشن کے کیسز کے حوالے سے بعض در پیش مشکلات کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے ۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ معاملہ حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطح پر اٹھایا ھے ۔ اُمید ھے بہت جلد حل ھوجا ئے گا۔مستقل بنیادوں پر ملازمین کےپینشن کا مسلہ حل کرنے کے لئے بولان یونیورسٹی نے اے جی بلوچستان کے چند ریٹائرڈ قابل اور تجربہ کار آفیشلز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں اور وہ گذشتہ چار ماہ سے یونیورسٹی کے تمام ملازمین کے پینشن اور دیگر فنڈز کے حوالے سے موجود ریکارڈ جمع کر رہے ہیں، لہذابہت جلد ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والے واجبات کی ادائیگی یونیورسٹی کے اندر ھی شروع ھو جائے گی۔

ترجمان کے مطابق ادارے عوام کے مفاد میں بنائے جاتے ہیں اور یونیورسٹیز و دیگر تعلیمی ادارے عوام کے بچے اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کیلئےتشکیل دیے جاتے ہیں۔ ملازمین ان اداروں میں فرائض اور خدمات کی ادائیگی کیلئے رکھے جاتےہیں، بولان میڈیکل کالج صوبے کا PMDC سے تسلیم شدہ (recognised)واحد میڈیکل کالج ھے۔ HEC اور PMDC کی ریگولیشنز اور BUMHS Act 2017 کے تحت بی ایم سی بولان یونیورسٹی کا جزوترکیبی(constituent) کالج ھے۔ لہذا بی ایم سی کی بحالی کی صورت میں بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسزکا وجود ختم ھو جائے گا۔
تاہم یونیورسٹی کے قانون میں ملازمین کیلئے تمام تر تحفظ ہونے کے باوجود اگر کوئی بھی ملازم ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں واپس جانا چاہتا ہو اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو بھی اعتراض نہ ہو تو اس ملازم کو یونیورسٹی سےہیلتھ ڈپارٹمنٹ جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔

بیان کے آخر میں ترجمان نے سٹوڈنٹس اور ملازمین کے حالیہ احتجاج کے محرکات پر تبصرہ کرتے ھوئے کہا ہے کہ اسکے پیچھے بعض افراد کے شخصی مفادات کارفرماہیں اوریہ چند اشخاص دوسرے سادہ لوح طلبہ و طالبات اور ملازمین کو گمراہ کرکے احتجاج پر اُکسا تے اور مجبورکرتےرہے ہیں۔

ترجمان نے پریس ریلیز میں مزید کہا کہ بحیثیت چانسلر بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کوئٹہ کے معزز گورنر بلوچستان کے سیکریٹیریٹ سے اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر سیکریٹیریٹ سے سٹوڈنٹس اور ملازمین سے رابطہ کرنے کے باوجودکہ وہ اپنے مطالبات کے سلسلے میں آئیں’ سٹوڈنٹس اور ملازمین ملنے سے گریزاں ہیں۔