بلوچستان یونیورسٹی درسگاہ یا زندان – عامر بلوچ

587

بلوچستان یونیورسٹی درسگاہ یا زندان

تحریر: عامر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے دو سال بعد کی بات ہے کسی کام کے سلسلے میں یونیورسٹی جانا ہوا تو اندر جانے کے کے لیئے جب ایک سکیورٹی اہلکار نے شناختی کارڈ مانگا، شناختی کارڈ دکھانے کے بعد اندر جانے کی اجازت سیکورٹی اہلکار سے ملی تو اندر گھستے ہی ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی، جہاں لوگ علم حاصل کرنے جاتے تھے، جہاں صباہ دشتیاری جیسے استاد کے لیکچر سننے کے لیئے باہر کے اسٹوڈنٹس بھی بغیر کسی روک ٹوک کے آتے تھے، نہ کوئی سیکورٹی رسک ہوتا تھا، نہ کسی بہن کی عزت و آبرو کو خطرہ تھا، پر ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ سیکورٹی رسک کو بنیاد بنا کر فورسز کو اندر لایا گیا اور پھر ہمارے بہتریں استادوں اور طلباء کو یا تو نامعلوم لوگوں نے قتل کر دیا یا پھر غائب کر دیا گیا۔ پھر دیکھتے دیکھتے یونیورسٹی چھاونی میں تبدیل ہوتا گیا، حقیقی طلباء تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور مفاد پرست ٹولہ آگے آگیا اب کوئی باہر والا اندر نہیں آسکتا تھا، اگر آبھی جاتا تو مکمل شناخت کے بعد ہی۔ اب طلباء کے بجائے انتظامیہ مظبوط ہو گیا ہے، اتنا مظبوط کے طلباء کو اپنا حق مانگنے پر بھی دھمکی دی جاتی ہے، کہ یہ اب بلوچستان یونیورسٹی نہیں بلکہ یونیورسٹی آف بلوچستان ہے۔

جب میں واپس آگیا، تو چند دن بعد یونیورسٹی میں زیرتعلیم ایک طالب علم سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں میں نے پوچھا کے کیسا ہے اب یونیورسٹی تو کہنے لگے کہ اب پہلے سے بہت بہتر ہے، نہ خواہ مخواہ کی تنظیمیں ہیں، نہ کچھ، تو میں نے کہا کے سنگت جب طلبا تنظیمیں نہیں ہونگے، سٹیڈی سرکل نہیں ہونگے، اپنے حقوق کا شعور کون دے گا؟ دنیا کے سیاست پر بحث نہیں ہوگی تو دنیا میں آنے والے سیاسی، معاشی تبدیلیوں کا مقابلہ کیسے کرو گے؟ جب تم لوگوں کو پتہ ہی نہیں کے کیا ہو رہا ہے۔

اس جیل میں تم لوگوں کا دم نہیں گھٹتا، جہاں میں دو گھنٹہ نہیں رہ سکا؟ جہاں استاد کم سیکورٹی اہلکار زیادہ دکھائی دے رہے ہیں؟ تو وہ کہنے لگا پہلے یونیورسٹی نہیں لگتا تھا، اب یہ ایک یونیورسٹی لگتا ہے۔ تب مجھے لگا کہ ان سے بحث فضول ہے، جن کو اپنی پاوں میں بندھے بیڑیوں سے محبت ہو۔

چند دن پہلے جب اسکینڈل سامنے آیا تو ایسا لگا کہ کسی نے ہمارے وجود کا ایک حصہ نوچ لیا ہو، یونیورسٹی کے ہر کونہ، ہر جگہ، ہر کلاس روم یہاں تک کے ہر درخت ہم سے شکوہ کر رہا ہو۔ میرے بہنوں! ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے ہمیشہ آپ کو نام نہاد عزت و غیرت کے نعرے کے لیئے استعمال کیا، بس۔۔۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔