بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور لاشوں کا ملنا بند نہیں ہوا – ماما قدیر

330
File Photo

کوئٹہ کے علاقے کلی قمبرانی میں پاکستانی فورسز گھروں پر چھاپے مار رہے ہیں اور نوجوانوں کو اٹھاکر لے جارہے ہیں – ماما قدیر بلوچ

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان مین جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے۔ مختلف علاقوں میں پاکستانی فورسز کی جانب سے آپریشن کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ بیس سال سے یہ سلسلہ جاری ہے جبکہ اس میں اب تیزی آئی ہے۔ اگر دو لاپتہ افراد بازیاب ہوتے ہیں تو درجنوں افراد لاپتہ کیئے جاتے ہیں اور کئی افراد کو قتل کرنے کے بعد اجتماعی قبروں میں دفنا دیا جاتا ہے۔

ماما قدیر نے کہا ہے کہ جو افراد کسی شخص کے بازیابی پر کریڈٹ لیتے ہیں وہ لوگوں کو لاپتہ کرنے پر بھی بات کرے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ کوئٹہ کے علاقے کلی قمبرانی میں پاکستانی فورسز گھروں پر چھاپے مار رہے ہیں اور نوجوانوں کو اٹھاکر لے جارہے ہیں اس سے قبل بھی مذکورہ علاقے اور گردونواح میں پاکستانی فورسز اور اداروں کی جانب سے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے ڈیتھ اسکواڈ گروپ تشکیل دیئے ہیں جو لوگوں کو لاپتہ کرنے، خفیہ مقامات پر رکھنے اور ان کے قتل میں ملوث ہیں لہٰذا ہم کہنا چاہتے ہیں کہ یہ نیک شگون نہیں ہے ان اعمال کو بند ہونا چاہیئے۔

انہوں نے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان افتخار چوہدری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2007 میں انہوں نے جبری گمشدگیوں میں پاکستانی خفیہ اداروں کو ملوث قرار دیا تھا اور ساتھ ہی عدلیہ نے حکم دیا کہ دو دن کے اندر خفیہ ادارے لاپتہ افراد کو رہا کردیں نہیں تو قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

ماما قدیر نے کہا ہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز جبری گمشدگیوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور ہم ان ناانصافیوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھائے گیں۔