بلوچستان متعلق اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے نام بی ایچ آر سی کا کھلا خط

462

بلوچ ہیومن رائٹس کونسل (بی ایچ آر سی) نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس کے نام لکھے گئے اپنے ایک کھلے خط میں پاکستان میں بلوچ عوام کو درپیش مسائل اور پریشانیوں سے متعلق عالمی ادارے کے اعلیٰ عہدیداروں کی بے عملی اور خاموشی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کو لکھے گئے اپنے گذشتہ خطوط میں بی ایچ آر سی اس حقیقت کو اجاگر کرتی رہی ہے کہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے گذشتہ پندرہ سالوں سے بلوچ قوم کی منظم نسل کشی کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں، ہزاروں گھروں پر حملہ کیا جارہا ہے، دیہات جلائے جا رہے ہیں، املاک کو لوٹا جا رہا ہے۔ اور روزانہ کی بنیاد پر خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی تذلیل کی جارہی ہے- بلوچستان میں سیاسی و سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا جبری طور لاپتہ کر دینا اور غیر قانونی قتل وغارت گری روز کا معمول بن چکی ہیں جہاں سیکیورٹی ایجنسیاں استثنیٰ کے ساتھ یہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ غیر انسانی فعل بلوچ قوم کی اپنی حقیقی معاشرتی و اقتصادی حقوق اور اپنی حق خودارادیت کے لئے اٹھائی جانے والی آواز کو خاموش کرنے کے لئے انجام دئیے جا رہے ہیں۔

مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کی جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان سے پانچ ہزار سے زائد افراد جبری طور لاپتہ کر دے گئے ہیں اور سینکڑوں افراد کو ماروائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے- 500 سے زائد افراد محض 2019 میں ماروائے عدالت قتل کر دیئے گئے- بلوچوں کی جبری گمشدگی اور ماروائے عدالت قتل کی تصدیق غیر جانبدار ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹس بھی کرتی ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ بلوچوں کا اقتصادی استحصال پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں کا ایک اور پہلو ہے۔ بلوچستان میں نام نہاد میگا پراجیکٹس جن میں دودر، سیندک، ریکوڈک شامل ہیں، ان سب چینی کارپوریشنوں کو بلوچ عوام کی مرضی کے خلاف لیز پر دے دیا گیا ہے۔ وہ قدرتی وسائل کا بے رحمانہ استحصال کررہے ہیں اور کاروباری اخلاقیات اور ماحول دوست طرز عمل کے معیارات کے خلاف اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے ماحول کو دور رس نقصان پہنچ رہا ہے- ستم ظریفی یہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بھی بلوچستان کے عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

مزید کہا گیا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) نے بلوچستان میں معاشرتی اور ثقافتی صورتحال کو بدتر کردیا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی اطراف میں موجود دیہات کی آبادیوں کو زبردستی بے گھر کیا جارہا ہے اور لوگوں کی رضامندی کے بغیر اور بغیر کسی معاوضہ کے انکی زمینیں چینی کمپنیوں اور کاروباری شخصیات کو الاٹ کی جارہی ہیں۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچ عوام کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ سیکیورٹی اداروں نے بلوچستان کو “نو گو” ایریا بنا دیا ہے- ملکی اور بین الاقوامی میڈیا سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی کارکنوں پر پچھلے 15 سالوں سے بلوچستان میں داخلے پر پابندی ہے۔

بی ایچ آر سی نے گوتیرس سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے اپنے متوقع دورے کے موقع پر بلوچستان میں جبری طور لاپتہ اور ماروائے عدالت قتل کے متاثرین کے اہل خانہ سے ذاتی طور پر ملاقات کریں۔ اور ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن تشکیل دیں جو پاکستان کے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے اپنی سماجی و اقتصادی حقوق اور اپنے قومی حق خودارادیت کے حصول کے خواہاں بلوچوں کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کی شدت اور نقصانات کا تعین کرے۔

خط میں مزید اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جناب سیکرٹری جنرل بلوچوں اور پاکستان کے مابین جاری خونی تنازعہ کے تناظر میں انسانی بنیادوں پر بلوچستان کے عوام کی مدد کریں- انہوں نے بلوچوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا- انصاف کی عدم فراہمی ایک پوری قوم کو مایوس کرنے کے مترادف ہے جنہیں تسلیم شدہ بدمعاش ریاست کے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں نسل کشی کا سامنا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی فرد یا ریاست بین الاقوامی قوانین سے بالاتر نہیں ہونا چاہیئے- بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے ذمہ داران سے جواب طلبی ہونی چاہیئے۔