بلوچستان حکومت اخلاقی طور پر مستعفی ہوجائے – اپوزیشن

258

بلوچستان اسمبلی کے متحدہ اپوزیشن کے اراکین نے صوبائی حکومت کو تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے اخلاقی طور پرمستعفی ہوجائیں۔ حکومت اپوزیشن جماعتوں کے حوالے کیا جائے۔ تمام معاملات ٹھیک ہوجائینگے۔ ان خیالات کا اظہار اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے علامتی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس سے قبل بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے بلوچستان اسمبلی سے پیدل مارچ کیا اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا۔ اپوزیشن لیڈرملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ 70 سالوں سے عوام کو ذہنی پریشانی کے سوا کچھ نہیں ملا 70 سال سے عوام محرومیوں کا شکار رہیں جس کی وجہ سے صورتحال گھمبیر ہوتی جارہی ہے حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حکومت سرکاری ہسپتالوں میں عام ادویات فراہم نہیں کرسکتے تو کرونا وائرس کا کیا مقابلہ کرینگے کرونا وائرس کو روکنا موجودہ حکومت کی بس کی بات نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ امن وامان کی صورتحال بگڑتی جارہی ہے۔ بلوچستان کے عوام کو تعلیم کی بنیادی سہولیات فراہم کیئے جائے گے مگر ان ڈیڑھ سال میں کچھ نہیں کیا جاسکا صوبے میں کرپشن کم ہونے کے بجائے اضافہ ہوا ہے اگر حکومت کو عوام کا درد ہوتا تو کرپشن کرنے والے کے خلاف کارروائی کی جاتی۔ ایم ایس ڈی سے عوام کے لیے 27 کروڑ روپے کی جعلی ادویات خریدی گئی ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے بلکہ عوام کے حقوق کیلئے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا د ے رہے ہیں اگر ہم سیندک، گوادر کی بات کرتے ہیں تو حق پر ہیں عوام کے ساتھ کسی قسم کی محرومی کو برداشت نہیں کرینگے۔

بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان میں کرونا وائرس ایک وباء کی شکل اختیار کر چکی ہے مگر حکومت اب تک اس حوالے سے عملی طور پر اقدامات نہیں اٹھائے جس کی وجہ سے صورتحال بگڑتی جارہی ہے عوام کے حقوق پر کوئی سودا بازی نہیں کرینگے اور نہ ہی عوام کے مسائل حل کرینگے ماضی میں سی ایم ہاؤس میں عوام کے مسائل سنے جاتے تھے مگر آج وزیراعلیٰ ہاؤس کے دروازے عوام کے لیے بند کردیا گیا ہے یہ حکومت ناکام ہوچکا ہے۔

ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان آفت کی صورت حال سے دو چار ہیں ہمیں پتہ نہیں کہ ہمارے حلقوں میں کرونا وائرس کے لیے کیا اقدامات کئے گئے ہیں کروناوائرس کے حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیاگیا ہے 30ارب کے اسکیمات پر اپنے لوگوں کو نوازنے کے لیے بنایا گیا ہے یہ صوبہ یتیم خانہ بن چکا ہے 19 مارچ کو ہم نہیں بولے گئے بلکہ عوام ان حکمرانوں سے خود اپنے حقوق کا پوچھیں گے شہر کے تمام شاہروں پر اپنے حقوق کے لیے نکلے گے۔

اختر حسین لانگو نے کہا کہ بلوچستان میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے منشیات فروشوں کی سرپرستی کی جارہی ہیں منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے عوام کے فنڈز سے اپنے من پسند لوگوں کو نوازہ جارہا ہے اسکالرشپ میں ہمارے بچوں کو نظرانداز کیا گیا 19 مارچ کو وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے عوامی دھرنا دیا جائے گا عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو اس طرح لوٹنے نہیں دینگے۔

زابد ریکی نے کہا کہ بلوچستان کی حقوق پر کوئی سودا بازی نہیں کررہے گئے موجود صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے صوبائی حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کرسکا حکومت استعفیٰ دینا چاہیے اپوزیشن جماعتوں کے حلقوں میں مداخلت کسی صورت قابل قبول نہیں صوبے کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

حاجی نواز کاکڑ نے کہا کہ موجود حکومت سلیکٹڈ ہے انہیں عوام کا کوئی پروا نہیں سرعام میرٹ کی پامالی کی جارہی ہے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے صوبائی حکومت کی ناہلی کے باعث بجٹ لیپس ہوچکا ہے بلوچستان کے عوام پر رحیم کیا جائے لوگ بے روزگاری سے تنگ آچکے ہیں کرونا وائرس ہمارے سرحدوں تک پہنچ چکا ہے حکومت کی جانب سے کروناوائرس کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔

اپوزیشن رکن میر حمل کلمتی نے کہا کہ بلوچستان میں صحت بنیادی سہولیات میسر نہیں تو حکومت کرونا وائرس سے قابل کرے اگر حکومت نے اپوزیشن کے جائز مطالبات تسلیم نہیں کئے تو ہم بھر پور احتجاج کرینگے جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پرعائد ہوگی۔