بلوچستان ایجوکیشن سسٹم کے آرگناٸزر اور رضا کاروں پر حملہ

199

آواران کی تاریخ میں پہلی بار تعلیمی و ادبی میلہ منعقد کرنے والے اور آواران کے اسکولوں پر تحقیقی کام کرنے والی تنظیم بلوچستان ایجوکیشن سسٹم کے آرگناٸزر شبیر رخشانی اور اس کے ساتھیوں پر گذشتہ روز حملہ ہوا۔

ان پر یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب وہ جھاؤ کے ایک سرکاری سکول سے ملحقہ میدان کی صفائی کر رہے تھے تاکہ سکول کے طلبا وہاں کھیل کود سکیں۔ حملہ آوروں نے میدان پر اپنا دعویٰ کیا اور رضاکاروں کو وہاں سے نکل جانے کی دھمکی دی۔ رضاکاروں کی جانب سے مزاحمت پر انہوں نے پتھراؤ کر دیا جس سے ایک رضاکار کا معمولی چوٹیں آئی ہیں۔ دیگر احباب خیروعافیت سے ہیں۔ لیکن پولیس اور انتظامیہ اب تک ذمے داروں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سے گریزاں ہیں۔

بلوچستان ایجوکیشن سسٹم کے آرگناٸزر شبیر رخشانی کا کہنا ہے کہ ہمیں مختلف طریقوں سے حراساں کر کے کام سے روکنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور ہم نے آواران کے انتظامیہ کو پیشگی اس ساری صورتحال کی اطلاع دی تھی۔ مگر وہ کسی بھی طرح ہماری مدد کرنے کو راضی نہ ہوئے اور غفلت برتتے رہے جس کے بعد آج کا واقعہ پیش آیا اور ہمارے ساتھی زخمی ہوئیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اب بھی انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس حملے میں ملوث لوگوں کے خلاف کاررواٸی کریں۔ ہم کسی بھی صورت اپنی مثبت سرگرمیوں اور تعلیمی مہم سے باز نہیں آئیں گے۔ تعلیم، ادب اور صحت کی ابتر صورت حال پر ہم پہلے سے بھی زیادہ محنت اور لگن سے کام کر کے اپنی اجتماعی بھلائی کی کاوشیں جاری رکھیں گے۔

صحافی شامیر بلوچ کا سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر اس حوالے سے کہنا ہے کہ شبیر رخشانی کا واحد قصور آواران میں تعلیم کی روشنی اور امید پھیلانا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شبیر اور اس کی ٹیم پر جن افراد نے حملہ کیا تھا وہ قدوس بزنجو کے حامی تھے۔

خیال رہے سرکاری حکام کی جانب سے تاحال اس حوالے کچھ نہیں بتایا گیا۔