بلوچستان اور برطانوی مؤرخین | قسط 13 – برطانوی جاسوسوں کی آمد اور ان کے مقاصد

215

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

قسط 13 | برطانوی جاسوسوں کی آمد اور ان کے مقاصد (ساتواں حصہ)

بلوچوں کی نسلی اور سیاسی تاریخ پر جتنی بھی کتابیں لکھی جاچکی ہیں ان میں بلوچوں کی نسلی اصلیت کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا گیا ہے اور ان کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ نہ صرف مضحکہ خیز اور حقائق سے ہٹ کر ہے بلکہ ان میں بلوچوں کی اصل تاریخ کو مزید الجھا دیا گیا۔ ‘‘(31)

            دراصل ان بہروپیوں کا اصل مقصد فوجی نقطہ نظرسے خطے کا جائزہ لینا تھا۔ ان مقاصد میں ذرائع نقل وحرکت اور حکمرانوں کی افرادی قوت شامل تھی مگر ان ایجنٹوں نے اپنے روزمرہ کے مشاہدات، واقعات، حالات دید و شنید کو من وعن تحریر کیا جن کی وجہ سے ان کی تحریروں میں اغلاط کی کثرت ہے۔ انہوں نے صفحہ بہ صفحہ بلوچ قبائل کو وحشی لٹیرے، ڈاکو، قاتل اور غیر مہذب تحریر کیا، حالانکہ قدم بہ قدم ان وحشی، لٹیرے، ڈاکو، قاتل اور غیر مہذب قبائل نے نہ صرف ان کی مہمان نوازی کی بلکہ انہیں رہنمائی بھی فراہم کرتے رہے ۔ وگرنہ ان بہروپیوں کا بلوچستان کے وسیع میدانوں، پر پیچ کوہساروں اور صحرائی بھول بھلیوں سے زندہ نکلنا ناممکن تھا مگر اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو خدا کا فرستادہ اور اپنے میزبانوں اور راہبروں کو وحشی درندہ لکھتے ہیں۔ اب اس سے زیادہ بددیانتی اور خود غرضی کیا ہوسکتی ہے اور کیسے ان برطانوی تحریروں پر بھروسہ کیا جاسکتا اور کیسے انہیں حتمی کہا جاسکتا ہے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ آج سے دو سو سال قبل جب یہاں ذرائع مواصلات بالکل کہنہ و شکستہ تھے مہم جوئی و سیاحت کرنا بہت دل گردے کا کام تھا۔ قدم قدم پر پوٹینگر اور اس کے ساتھی کیپٹن کرسٹی کو لٹنے اور مرنے کا اندیشہ تھا لیکن انہوں نے جس دلیری، جرأت، حاضر دماغی، موقع شناسی، خطر پسندی اور قوت برداشت کا ثبوت دیا وہ یقیناً قابل تحسین تھا اور ان کا یہی جذبہ ان کی قوم و وطن کے لئے مفید ومعاون ثابت ہوا۔ گویا کہ ان کا جذبہ انسانی ہمدردی، خوشحالی احترام اور تحصیل علم کا تو نہ تھا تاہم انگریز جب ہوس پرستی کے شیطانی چرخے پر سوار تھے تو اس کے افراد ذمہ داری، مستقل مزاجی اور فرض شناسی کا ایک روشن اور مثالی نمونہ ضرور تھے اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ اس توسیع میں اپنا حصہ ڈالنا اپنا فرض سمجھتا تھا یہی تو وجہ تھی کہ تاج برطانیہ کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔

            لیفٹننٹ گرانٹ کی تحریریں دستیاب نہیں ہیں البتہ کرسٹی کی تحریروں کے بعض حصے لیفٹنینٹ ہنری پوٹینگر کی کتاب سفرنامہ سندھ وبلوچستان میں ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی برطانوی مواد کثرت سے دستیاب ہے کہ جو بلوچستان کے بارے میں انیسویں صدی کے دوران تحریر ہوتے رہے ہیں ۔ کیونکہ پوٹینگر کے بعد بلوچستان میں برطانوی مداخلت بڑھتی گئی اور ان کی آمد میں بھی تیزی آتی گئی  انہیں بہرحال افغانستان پر قبضہ کرنا تھا اور اپنی سرحدیں روس کے ساتھ منسلک کرنی تھیں اور اپنے سامراجی اور توسیع پسندانہ خواہش کی تکمیل کے لئے وہ سب کچھ کرنا چاہتے تھے۔ برطانیہ کو خطے کے دیگر ممالک اور ان میں بسنے والے انسانوں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی اور نہ ہی طاقت کے نشے میں چور برطانیہ انسانیت کے احترام سے واقف تھا وہ وحشی اور درندے تھے اور انسانوں کا شکار کرنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ لہٰذا افغانستان اور ہندوستان کے مابین آنے والی تمام ریاستوں کو انہوں نے آہستہ آہستہ ہڑپ کرنا شروع کیا۔

            1838ء میں سرالیگزنڈر برنس نے خان قلات میر محراب خان شہید سے ایک معاہد  کیا اور برطانوی افواج نے اسی سال شاہ شجاع کی نام نہاد امداد کے بہانے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ مگر بلوچستان سے گزرنے والی برطانوی کانوائیوں پر بلوچ (مری) قبائل کے حملوں نے افغانستان پر حملہ آور برطانوی فوج کے قدم اکھیڑ دیئے اور اسے سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا لہٰذا برطانیہ نے سب سے پہلے قلات کو ہضم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1839ء میں انڈس آرمی نے جنرل ولشائر کی کمان میں قلات پر حملہ کیا اور خان قلات میر محراب خان اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت انگریز وں سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔