براعظم افریقہ میں 50 لاکھ بچے تشدد کے اصل شکار ہیں- یونیسف

433

یونیسف کا کہنا ہے کہ تقریباً 50 لاکھ بچے براعظم افریقہ کے علاقے ساحل میں بڑھتے ہوئے تشدد کے اصل شکار ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نشانہ ہیں، جن میں اغوا، کمسنی میں فوجیوں کے طور پر ان کی بھرتی، جنسی زیادتی اور دوسری قسم کی زیادتیاں شامل ہیں۔

ایسے بہت سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے بورکینا فاسو، مالی اور نائجر میں بچوں اور ان کے خاندانوں کو مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بچوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی خشک سالی اور سیلاب کی وجہ سے کاشت کاروں اور چرواہوں کا روزگار تباہ ہو رہا ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے وسائل کے معاملے پر فرقہ وارانہ تشدد بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ انتہاپسند اور مسلح گرپوں کے پھیلاؤ کی بنا پر کم عمر بچوں کی فوجیوں کے طور پر بھرتی میں اضافہ ہورہا ہے۔

یونیسف میں ایمرجینسی آپریشنز کی ڈپٹی ڈائریکٹر مریٹزیل ریلانو نے کہا کہ بہت سے خاندانوں کا کوئی آمدنی نہیں ہے اور انہیں خوراک، پانی اور دوسری ضروری اشیا کی کمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سب کا بچوں پر اثر پڑ رہا ہے۔

اس کے علاوہ ہر قسم کے تشدد کی وجہ سے اسکولوں اور صحت کی سہولتوں تک رسائی متاثر ہو رہی ہے۔ ان انتہا پسند گروپوں نے اسکولوں پر حملے کیے ہیں۔ اساتذہ کو ہلاک کیے جانے وغیرہ جیسے واقعات ہوئے ہیں۔ لہذا، بچے اب اسکول نہیں جا سکتے۔

ریلانو کا مزید کہنا ہے کہ بچوں کو صحت کی سہولتوں تک رسائی حاصل نہیں ہے اور مہلک بیماریوں کے خلاف ان کو بچاؤ کے ٹیکے نہیں لگائے جا رہے۔ انہوں نے کہا کہ سات لاکھ سے زیادہ بچوں میں بہت سے غذائیت کی سخت کمی کا شکار ہیں اور انہیں زندگی کے تحفظ کے لیے علاج بھی دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ساحل کے علاقے کے ملکوں میں بچے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہیں اور یہ مناظر عام ہیں۔

یونیسف کی عہدے دار نے کہا کہ علاقے میں بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے بہت سے بچے ہلاک اور اپاہج ہو رہے ہیں۔ گزشتہ سال کے آخر میں بورکینا فاسو کے ایک مشن کے دوران بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے ایک کیمپ میں انہوں نے لڑکیوں سے ان کی داستانیں سنیں۔ انہوں نے کہا کہ ان بچیوں نے جنسی زیادتیوں کی ہولناک کہانیاں بیان کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں نے ہم سے درخواست کی کہ ہمیں کسی قسم کا کام دیں۔ ہمارے لیے کچھ ایسا کریں کہ ہم اسکول جا سکیں۔ ہم سارا دن کیمپ میں اکیلی نہیں رہ سکتیں۔ ہم خود کو غیر محفوظ خیال کرتی ہیں۔ ہمیں خوف آتا ہے۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہم اسکول نہیں گئے یا ہمیں تحفظ نہیں ملا، یا ہماری مدد نہیں کی گئی تو ہمارے ساتھ کچھ برا ہو سکتا ہے۔

یونیسف اور معاون ادارے اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ساحل کے علاقے میں بچوں کو فوری طور پر درکار مدد، تحفظ اور تعلیم، صحت اور زندگی کے بچاؤ کی دوسری سہولیتں مہیا کی جائیں۔ انہوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ رقم کی فراہمی ہمیشہ مسئلہ بن جاتی ہے۔

یونیسف کا کہنا ہے کہ اسے توقع ہے کہ بین الاقوامی برادری 20 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی اس اپیل پر توجہ دے گی، تاکہ اس سال وسطی ساحل کے علاقے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر منصوبوں کو چلایا جا سکے۔

یہ سنگلاخ علاقہ مشرقی سوڈان سے لے کر مغرب میں بحر اوقیانوس تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے میں نائجر، مالی، چاڈ بورکینا فاسو اور ماریطانیہ کے ملک شامل ہیں۔ ان ملکوں کو جی فائیو ساحل کے ممالک کے طور پر جانا جاتا ہے۔