وطن کی پکار – نودان بلوچ

946

وطن کی پکار

 تحریر : نودان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وطن ماں ہوتی ہے اور ماں سے پیار تو سب ہی کرتے ہیں، شاہد وہ بدبخت ہی ہوگا جو ماں کی پیار اور محبت سے انکار کریگا
وطن کی محبت دنیا کی عظیم ترمحبتوں میں شمار ہوتی ہے ،وطن کی محبت کے آگے کسی  دوسری چیز سے بھی محبت بے معنی ہوتاہے کیونکہ وطن ہم سے ہے اور ہم وطن کے لئے ہیں ہم وطن کے لئے بنے ہیں ہمیں اسی کے لئے جینا اور مرنا ہے
ماں کی پیروں تلے جنت ہے اور ہمارا وطن ہی ہماری ماں اور جنت ہے وطن ہمارا دین ، ایمان اور قبلہ ہے۔

وطن ماں ہے جب ماں کی تذلیل اور بے حرمتی ہوتی ہے تب ماں کی دل دکھتی ہے اور جب ماں روتی اور آہ بھرتی ہے تو خدا ناراض ہوتا ہے، عرش لرز اٹھتی ہے آسمان برسنے لگتی ہے اور ہر چیز روٹ جاتی ہے تب قیامت کا سماں ہوتا ہے
کہتے ہیں کہ جنت میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں انسان کی ہر جائز خواہش کی تکمیل ہوتی ہے اور انسان دکھ اور درد سے کوسوں دور ہوتا ہے ۔

ہماری ماں اور جنت جوکہ ہمارا وطن ہے جسکی برسوں سے بے حرمتی ہوتی آرہی ہے جس میں کشت وخون جاری ہے، جہاں ماں اور بہنوں کی عزت محفوظ نہیں ،جسکی واضح مثال بلوچستان میں ہونے والے فوجی آپریشنوں سے ملتا ہے جہاں عورتوں اور بچوں کو اغواء کرکے انکی عزت کی پامالی کی جاتی ہے ،زرینہ مری سمیت سینکڑوں بہنیں آج بھی ریاستی ٹارچرسیلوں میں قید کی زندگی گزار رہے ہیں اور بہت سارے ریاستی غلامی کے خلاف ریاست سے نبرآزما ہیں ،قومی آزادی کے لئے صف اوّل میں کھڑے ہیں جب بلوچ قومی تحریک اور بلوچ عورتوں کا اس تحریک میں کردار کی بات ہو تو دور حاضر میں سب سے متحرک بلوچ عورت جس نے اپنی جرات مندانہ فیصلوں سے تحریک آزادی کو ایک نئی جان بخشی اور بلوچ تحریک آزادی کو دور جدید کے منصوبوں اور پالیسیوں سے آراستہ کی، جب آپ نے اپنی فرزند کو اپنے وطن کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار کیا اسکے سر پر اپنا ہاتھ رکھا اور مسکراتی ہوئی اپنی لخت جگر کوالوداع کیا اور وہ تاریخ میں امر ہوگیا تب قوم نے آپ کو “لمہ” کے لقب سے نوازا اور آپکو قوم کی ماں ہونے کا درجہ ملا آج آپ کو “لمہ یاسمین”کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
غلامی کی زنجیروں میں بندی ہوئی وطن آج اپنے فرزندوں کو پکار رہی  ہے
وطن پکار رہی  ہے کہ “من ماتءَ تہی منا آجو بکن”

وطن پکار رہی ہے ہمیں آزادی کے لئے ان دجالوں کی دہشت سے، فرعونی حاکمیت سے اور شدادوں کی جھوٹی جنت سے۔ وطن پکار رہی ہے کہ چلو آؤ اور دیکھو کہ کس طرح سے ظالموں نے ظلم کی انتہاء کی ہے اور وطن کی سینے کو چھیر کر رکھ دی ہے جہاں موت رقص کرتی ہے ، آتمائیں بھٹکتی ہیں، قبرستان آباد اور گھر ویران ہیں، گھروں میں ماتم ہے ، اسکولوں میں فوجی بستے ہیں، اور وطن کے بچے زندانوں میں قید ہیں ، جہاں دہشت راج کرتی ہے وہاں والدین کو بچے نصیب نہیں ہوتے ، دلہن دلہے کی انتظار میں زندگی بسر کرتی ہے ، بچوں کو یتیم اور لاوارث کیا جاتا ہے ،گھروں کو مسمار کر دی جاتی ہے
ظلم اور دُکھوں کی کہانی سے بھرا وطن (بلوچستان ) ہمیں پُکار رہی ہے۔

وطن چیخ کر ہمیں غلام ہونے کا احساس دلا رہی ہے ہمیں آنکھوں سے پٹی ہٹانے کا کہہ رہی ہے ہمیں ظلم کی داستاں سنار ہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ “ہگہ بش متورے مش مریرے
مگر ہم ہیں کہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں ، غلامی کا” طوق لانت” ہمیں گلے میں اچھا لگتا ہے ہم تو چند ہی ٹکروں کے لئے اپنے آپ کو بھیج دیتے ہیں ضمیر فروش بن جاتے ہیں اور ایمان ڈگمگا جاتی ہے، اپنے ہی خون کے دشمن بن جاتے ہیں اپنے ہی ماں کی عزت کو تار تار کرتے ہیں ،اپنوں کے خلاف غیروں سے ملتے ہیں اور جب غیروں کا مقصد پورا ہوتا ہے تو ان غداروں اور دلاروں کا انکے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور پر ان غداروں کے ماتے پر ہمیشہ کے لئے وطن فروشوں کا داغ لگ جاتا ہے اور یہ لوگ تاریخ کے لئے سیاہ باب بن کر رہے جاتے ہیں۔ اور جو وطن کی پکار پر لبیک کرتے ہیں وہ قومی ہیرو کہلاتے ہیں وہ اپنی تاریخ خود لکھتے ہیں اور سرخ روح ہو جاتے ہیں اور آنے والے نسلوں کے لئے مثال بن جاتے ہیں۔

بلوچ قومی تحریک میں وطن کی آزادی کے لئے جان نچھاور کرنے والے وطن زادے اور شہیدوں کی ایک طویل فہرست ہے شاید انکو بیان کرنے کے لئے ایک کتاب بھی کم پڑے۔

وطن کے دیوانے، وطن سے بے پناہ محبت کرنے والے جب وطن کی پکار پر اپنا جان ومال وطن کے لئے نچھاور کرتے ہیں تو وطن کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے اب دنیا کی کوئی بھی طاقت مجھے میری آزادی حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ میرے وارث، میرے “سرمچار “ ایک مضبوط چٹان کی مانند ہر قوت کا مقابلہ کرنے اور اسکو شکست فاش دینے کے لئے تیار ہیں ۔

وطن کو جب سامراج کا سامنا تھا تب میر محراب خان نے اپنی کم طاقت مگر بلند حوصلوں کے ساتھ سامراج کا سامنا کیا اور اپنے وطن عزیز کی خاطر قربان ہوکر امر ہوگئے جو آج تک ہر بلوچ کے دل و دماغ میں زندہ ہے۔
بلوچ قومی تحریک آزادی کے لئے شہید ہونے والوں کی بہت بڑی تعداد ہیں سب کا یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ہوگا بلوچستان کی آزادی کے لئے شہید ہونے والا ہر ایک فرزند ہمارے لئے قومی ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے ،وطن کی پکار پر لبیک کرنے والوں میں سے کچھ کے نام لیے بغیر میں اپنا تحریر کو ادھوراسمجھوں گا شہید بالاچ مری جس نے وطن کی خاطر دنیا کی سب ہی عارضی خواہشات کو ٹکرا کر وطن کے لئے پہاڑوں میں زندگی گزار کر موت کو گلے لگا لیا، شہید قمبر چاکر،شہید رضا جہانگیر، شہید الیاس نظر ،شہید سنگت ثناء ،شہید حق نواز ، شہید نثار ،شہید امیرالملک اور مجید برگیڈ میں شامل سب ہی فدائی شہید جنرل اسلم بلوچ کی کاروان کے سپاہی اس وطن کے وہ سپوت ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کو مضبوطی اور کامیابی سے ہمکنار کیا۔

آج وطن کو ہر ایک کی ضرورت ہے اور ہر بلوچ کا فرض ہے کہ وہ وطن کی آزادی کے لئے اپنا کردار ادا کرے ،کیونکہ آزادی دنیا کی عظیم تریں نعمتوں سے ایک ہے آزادی حاصل کرنے کے لئے ہر اس زرائع کو بروئےکار لایا جائے جس سے تحریک کو مضبوطی ملے گی ،قلم، کتاب، بندوق، انٹرنیشنل ریلیشن ، انٹرنیشنل ڈپلومیسی، پروپیگنڈہ، زندگی کا واحد مقصد آزادی کا اصول ہونا چاہیے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔