لاپتہ افراد – یارجان زیب

296

لاپتہ افراد

تحریر: یارجان زیب

دی بلوچستان پوسٹ

پچھلے کئی دنوں سے بلوچستان میں جاری ایک سیاسی بحث نے کئی رُخ موڑے ہیں۔ کوئی کھلے خط کے ساتھ گلہ داری کررہا ہے اور اُس کے بعد شکریہ اختر جان کے کئی رنگ ہمارے سامنے آئے ہیں۔

ایک طرف بات جاری ہے کہ سردار اختر مینگل نے آرمی ایکٹ کی حمایت کرکے بلوچستان اور بلوچ عوام کے ساتھ مزاق کیا ہے تو دوسری طرف لاپتہ افراد کی بازیابی کا جو سلسلہ جاری ہوا ہے، اُس پر بھی سیاست کا بدنُماسایہ پڑ گیا ہے، وہاں یہ باتیں جاری ہیں کہ سردار مینگل کی جگہ ماما قدیر کا شکریہ ادا کیاجائے جبکہ یہ بات اپنی جگہ پر برحق ہے کہ ماماقدیر کے جدوجہد کو سامنے رکھاجائے لیکن یہ وقت شکریہ ادا کرنے کا نہیں یہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ دست گریبان ہونے کا نہیں، ایک سلسلہ اگر شروع ہوا ہے اور وہ بھی ایک بِل کی حمایت سے تو کوئی بُرا سودا نہیں کیونکہ ہم سب ہی جانتے ہیں یہاں پر حکومت کس کی ہے اور ہو کیا رہاہے، پہلے اگر یہ سب پردے کے پیچھے سے ہورہا تھا تو آنے والے وقت میں سامنے سے ہم سب کو نظر آئے گا۔

ایک دن میں اگر درچن بھر افراد کا رہا ہونا اور اُن میں سے ایسے لوگ جو9سال سے زندان میں بند رہے ہوں، کیا ہمیں یہ کہنا زیب دیتا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ مزاق ہے، یہ کہ اس کا شکریہ کیوں ادا کررہے ہو، اُن کا کرو۔ سب سے پہلے تو شکریہ ادا کرنا بند کردیں کیونکہ اُن کا فرض بنتا ہے کہ وہ ہماری آوازوہاں تک پہنچادے ہمارے لوگوں نے اُن کے لئے بہت سی قربانیاں دی ہیں اپنے بھائیوں کی عزیزوں کی۔

ماما قدیر بلوچ ہو یا اخترجان، دونوں نے جدوجہد کی ہے لیکن یہ وقت بلوچ قوم کو دوحصوں میں تقسیم کرنا، بلوچ قوم،لاپتہ افرادکے خاندانوں کے ساتھ زیادتی ہے، اس جہدِ مسلسل میں اپنا حصہ دے اور آگے بڑھئے۔

ایک صاحب نے کہاتھاکہ یہ ”ناکارہ“لاپتہ افراد ہیں جن کو رہا کیا گیاہے یا کیا جارہاہے تو صاحب کل کو اِن ناکارہ افراد میں آپ کا بھی نام آسکتاہے، کیا وہ سب ناکارہ تھے جن کی لاش مسخ شدہ ملی یا وہ کئی افراد جو ایک ساتھ دفن کردیئے گئے تھے، وہ ناکارہ تھے یا پھروہ ناکارہ لوگ تھے، جو ہمارے لئے قربان ہوگئے،آج جن کے بچے جن کے والد جن کے خاندان کے فرد واپس آئے ہیں، صاحب ذرا جاکے پوچھ لیں کہ آپ کے ناکارہ افراد کو کیوں رہاکردیا گیا ہے، یہ تو ناکارہ تھا، اس کو ماردینا چاہیئے تھا، آپکو جو جواب ملے وہ ہم جاہلوں کو بتا دیجئے گا، یہ کسی فلم کا اسکرپٹ ہو یا کچھ اور ہمیں یہ پتہ ہے کہ اُن درجن بھر لوگوں کے گھروں میں کتنی خوشیاں واپس آئی ہیں اور وہ اَن ناکارہ لوگوں کے آنے سے کتنے خوش ہیں۔

اپنے ذاتی مفادات، اختلافات اپنی ذاتی دشمنی ایک طرف رکھ کر صرف بلوچستان اور بلوچ عوام کے حق کی بات کریں، توبہتر ہوگا، ہمارے لیئے بھی اور آنے والے نسلوں کے لیئے بھی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔