جبری گمشدگاں پہ بلوچ قومی بیانیہ – ریاض بلوچ

390

جبری گمشدگاں پہ بلوچ قومی بیانیہ

تحریر: ریاض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

صحافی حامد میر ایک تقریب میں فرما رہے تھے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو جنہیں ضیا کے فوجی حکومت نے تختہ دار پہ لٹکایا تھا نے دوران حراست ایک کتاب “افواہ اور حقیقت” لکھی ـ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں کراچی سے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل کے بیٹے اسد مینگل اٹھا کر غائب کر دیے گئے ـ انہوں نے وزیرِ اعلی سندھ سے پوچھا ، اُن سے جواب ملا؛ ہمیں نہیں پتہ آپ آرمی چیف سے پوچھیں ـ جب وہ آرمی چیف جنرل ٹکا خان سے پوچھتے ہیں تو اگلے دن ان کے دفتر میں تین جنرلز آتے ہیں ـ بھٹو ان سے پوچھتا ہے سابق وزیر اعلیٰ کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ وہ ملک دشمن تھا اس لیے اٹھایا گیا اور وہ ہمارے کمانڈوز کے ہاتھوں مارا جا چکا ہے آپ بس میڈیا میں کہہ دیں وہ افغانستان بھاگ گیا ہےـ بھٹو کہتا ہے ٹھیک وہ میں کہہ دوں گا لیکن ان کی لاش کہاں ہے؟ جرنیل کہتے ہیں کہ وہ ہمیں نہیں پتہ ان کمانڈوز نے سندھ کے کسی ویرانے میں دفنایا ہوگا ـ بھٹو لکھتے ہیں کہ وہ چپ رہے، آگے لکھتے ہیں کہ اگر وہ اس دن چپ نہیں رہتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی ـ

پاکستان ایک فوجی ریاست ہے ـ اس کے ہر ادارے بشمول پارلیمنٹ یا سیاسی جماعتیں سب فوجیوں کی مرضی و منشاء سے ہی چلتے ہیں ـ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے، اگر کوئی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے بوٹ چوم کر ہی گذرنا پڑتا ہےـ یہ جب چاہیں کسی کو صاحب اقتدار بنا دیں جب چاہیں فقیرـ

اب آتے ہیں بلوچ جبری گمشدگان کے بارے میں جو ایک انتہائی حساس انسانی حقوق کا معاملہ ہے ـ اب تک ہزاروں بلوچ فرزندان پاکستانی فورسز اور ایجنسیوں کے ہاتھوں جبراً لاپتہ ہوکر عقوبت خانوں میں اذیتیں جھیل رہے ہیں ـ سینکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاچکی ہیں ـ سینکڑوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا ہےـ سینکڑوں کو فوجی آپریشنوں میں مار کر دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور سینکڑوں کے جسم سے اعضاء نکال کر کراچی اور لاہور کے اسپتالوں میں منتقل کیے گئے ہیں ـ ہزاروں اب بھی غائب ہیں ـ یہ ایک طویل فہرست ہے ـ بد قسمتی سے کسی بھی بلوچ تنظیم یا ادارے کے پاس جبری گمشدگان کی تفصیلی کوائف یا کوئی مستند رپورٹ نہیں ہے ـ وجہ بہت سارے ہیں ـ ہوسکتا ہے انکے پاس ناگزیر وجوہات کی بنا پر ہر علاقے میں رسد نہیں ہے ـ دوسرا اور ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ ہے اور تیسرا سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ جبری گمشدگان کے معاملے میں ریاست کچھ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر بلیک میلنگ کر رہی ہےـ بلوچ گمشدگان کا سودا کیا جارہا ہے جس طرح سے سرینڈر کا ڈرامہ رچایا جاتا ہےـ

مثلاً الیکشن کے ادوار میں ریاست اور ریاستی زیر نگران سیاسی پارٹیاں کسی غریب کا بچہ بے قصور اٹھا کر غائب کرتے ہیں، اگلے دن وہ انتخابی امیدوار اس غریب بلوچ کے پاس جاتا ہے اور بلیک میل کرتا ہے کہ آپ ہمیں ووٹ دیں ہم آپکا بچہ لے آئیں گے ـ کچھ دنوں یا مہینوں بعد اسکا بچہ بازیاب ہوجاتا ہے ـ کچھ لوگ شکریہ فلانی کا ٹرینڈ چلا دیتے ہیں اور غریب بلوچ کو انکے بقول ریاستی دائرہ کار میں لاکر وہ اس ماحول پہ جشن منا لیتے ہیں ـ اسی طرح ایک سنگین انسانی مسئلہ پہ کریڈٹ گیم کا سلسلہ چلتا آ رہا ہے ـ

ہزاروں گمشدگان میں سے جب ایسے کچھ لوگ جن کا سیاست یا ریاست سے کسی دور کا واسطہ نہیں ہوتا وہ بھی اٹھا لیے جاتے ہیں ـ جب ریاستی پارٹیاں بلوچ اور مقبوضہ ریاست میں مصلحت پسندانہ سیاست شروع کرتے ہیں تو ریاست انہی لوگوں میں چار پانچ کو چھوڑ کر ان پارٹیوں کیلئے سیاسی ماحول کا راستہ ہموار کر دیتی ہے تاکہ ریاست کیلئے ایک پاکستانی طرز سیاست کا ماحول بنا رہے ـ

ہمارے لوگ بھی کتنے سادہ ہیں، جو ماما قدیر پچھلے دس گیارہ سالوں سے ان جبری گمشدگان کی بازیابی کیلئے ایک جہد مسلسل کر رہے ہیں ، جنہوں نے ایک ہزار کلومیٹر پیدل لانگ مارچ کیا انکی جدوجہد کو ایک دم بھول جاتے ہیں ـ ہماری ماں بہنوں کے شب روز احتجاج کو یکدم بھول جاتے ہیں اور کچھ سیاسی گیمبلرز کو کریڈٹ دے دیتے ہیں ـ

اگر جو کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ بلوچ پارلیمنٹرینز پارٹیوں کی سیاسی دباؤ یا کوششوں سے کچھ گمشدگاں بازیاب ہوئے ہیں تو کیا وہ ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ ان کو کس جرم میں سالوں اذیت خانوں میں پابند سلاسل کر رکھا تھا؟ کس جرم میں وہ سزا کاٹ رہے تھے؟ اور اگر جو چار پانچ زندہ بازیاب ہوئے ہیں، کیا وہ زندہ لاش نہیں ہیں؟ کیا انکو راتوں میں نیند آتی ہے؟ کیا وہ ایک نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہیں؟

اگر سچ میں یہ پارٹیاں بلوچ گمشدگاں کے سنگین معاملے میں اتنے مخلص ہیں تو آج تک، زاھد بلوچ، زاکر مجید ،ڈاکٹر دین محمد بلوچ ،شبیر بلوچ،نواز عطاء، راشد حسين، علی اصغر یا دوسرے بلوچ سیاسی کارکنان یا طلباء کو کیوں بازیاب نہیں کرا سکے؟ اگر انکو بازیاب نہیں کرا سکتے ہیں تو انکے خاندان والوں کو اتنا تو بتا دیں کہ انکے پیارے زندہ ہیں یا زندان میں دورانِ اذیت شہید ہو چکے ہیں.

ہم کچھ لمحوں کیلئے مان بھی لیں اور شکریہ اختر مینگل کہہ بھی دیتے ہیں، انکے بقول ہم سنگ دل ہیں ہم سے ان ماؤں بہنوں کے گھر میں خوشی دیکھی نہیں جاتی ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اٹھائے جائیں تاکہ بلوچ قومی آزادی کی سیاست مزید زور پکڑے ـ ہمیں اس چیز کا اندازہ نہیں ہے کہ انکے پیارے غائب ہیں انکے گھر کا کیا حال ہے ـ ہم تو بھگوڑے ہیں یا فراری ہیں ہمیں تو بغاوت کرنا ہی آتا ہے، دکھ درد میں قوم کے ساتھ نہیں کھڑے ہیں ـ کیا چند بیگناہ افراد کی بازیابی کا مطلب ہے بلوچ مسئلہ حل ہوگیا؟ کل کو پھر اٹھائے یا مارے نہیں جائیں گے؟ کیا ہم بلوچ گمشدگان کی بازیابی کیلئے اپنا قومی بیانیہ بدل دیں؟

یہ جنگ تو بلوچ نے پاکستانی قبضہ کیخلاف اور قومی غلامی سے نجات کیلئے خود شروع کی ہے ـ گمشدگان یا لاشوں پہ ماتم یا کسی کی رہائی پہ جشن عارضی ہو سکتی ہے ـ

کیا استاد اسلم کے جوان سال فرزند صحیح سلامت ان کے پاس نہیں تھے؟ پھر انہوں نے کیوں ان کیلئے موت یا شہادت کا رستہ چنا؟ کیا ان کو پتہ نہیں تھا کہ ان کا بیٹا شہید ہونے جا رہا ہے؟ لیکن ان کے بیٹے نے ہمارے روشن کل کیلئے خود کو قربان کردیا ـ

قومی آزادی کی جنگ میں قربان ہونے کا فلسفہ عظیم ہوتا ہے ـ ہمیں بے شک اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنے قومی بیانیے سے دستبردار ہو کر ریاستی بیانیے کی ترویج کریں ـ اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنے ہی لوگوں کی طویل جدوجہد کا کریڈٹ ریاستی اداروں یا پارٹیوں کو دیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔