بلوچستان اور برطانوی مؤرخین | قسط 6 – ڈاکٹر فاروق بلوچ

814

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

قسط 6 |برطانوی جاسوسوں کی آمد سے قبل بلوچستان کے سیاسی حالات ( آخری حصہ )

اٹھارہویں صدی کے اختتام پر برطانوی حکام نے محسوس کیا کہ شمال اور شمال مغرب کی جانب ان کی برطانوی مقبوضات کو روسی جارحیت سے خطرہ درپیش ہے اور انہیں اس بات کا بھی ڈر تھا کہ افغانستان اور ایران سے روسی اور فرانسیسی افواج ہندوستان میں مداخلت کر سکتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ صرف ایک بہانہ تھا وگرنہ برطانیہ کی پالیسی مزید زمینوں پر قبضہ کرنا تھا۔ یہ ہر طاقتور کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نام و نمود کی خاطر زیادہ سے زیادہ فوجی کارنامے سرانجام دے اور بڑے سے بڑا حاکم کہلائے۔ اپنی ہوس کی آگ بجھانے کی خاطر یہ طاقتور ممالک چھوٹے اور نسبتاً کمزور ممالک پر قبضہ جماتے جاتے ہیں اور اپنی سرحدات کی توسیع میں اضافہ کرکے اپنی ہوس ملک گیری کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں ۔ اپنی ان خواہشات کی تکمیل کی خاطر انہیں صرف بہانے تراشنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ سکندر نے نام و نمود کی خاطر مختلف بہانوں سے دنیا کے پرامن خطوں پر قبضہ جمایا، جیسا کہ روس نے افغانستان میں انقلاب کے تحفظ کے بہانے فوجی مداخلت کی اور موجودہ دور میں امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم نمایاں ہیں کہ کس طرح وہ عراق پر جوہری ہتھیاروں کے بنانے کا الزام عائد کرکے اور افغانستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا بہانہ بناکر ان ممالک پر حملہ آور ہوا لہٰذا طاقتور کو بہانے تراشنے سے کوئی نہیں روک سکتا اسے صرف اپنے خواہشات کی تکمیل چاہیے ہوتی ہے اور برطانیہ کی خواہش بھی یہی تھی کہ وہ اپنی سرحدات کو زیادہ سے زیادہ توسیع دے ۔

            انگریزوں کی مداخلت سے قبل بلوچستان کا خطہ ایک مثالی خطہ تھا اور یہاں پر وسط ایشیائی طرز کی خانیت قائم تھی مگر وسط ایشیا کے وحشی قبائل کی طرح یہاں بدامنی نہیں پائی جاتی تھی اور پورا خطہ سیاسی و معاشرتی طور پر پُرامن اور معاشی طور پر مستحکم تھا۔ یہ ایک عظیم گزر گاہ تھی کہ جہاں سے بڑے بڑے قافلے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب کی جانب رواں دواں رہتے تھے ایک طویل ساحل کی وجہ سے بحری تجارت اپنے عروج پر تھی اور کئی ممالک کے تاجران ساحلی بندرگاہوں پر تجارتی مال کی خرید و فروخت کرتے نظر آتے تھے جبکہ یہ وہ زمانہ تھا جب آس پاس کے خطوں ایران، افغانستان، سندھ، پنجاب حتیٰ کہ ہندوستان بھر میں شدید سیاسی، معاشرتی اور معاشی بحران تھا اور یہ تمام خطے انارکیت کا شکار تھے، مورخین بھی اٹھارہویں صدی کے بلوچستان اور خصوصاً میر نصیر خان نوری کے عہد 1749 تا 1794ء کو وسط ایشیائی طرز کی مثالی حکومت قرار دیتے ہیں(21) نہ صرف ملکی مورخین بلکہ خود برطانوی مورخین اور دیگر کئی اقوام سے تعلق رکھنے والے مصنفین میر نصیر خان کے عہد کو اس زمانے کا بہترین اور حکومت کو مثالی تحریر کرتے ہیں ۔ 22) (مگر جوں ہی برطانوی جاسوسوں نے یہاں مداخلت کرکے برطانوی افواج کے لئے راستہ ہموار کرنا شروع کیا تب سے یہاں عدم استحکام کا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر قلات کی حکمرانی کے خاتمے اور بلوچستان پرقبضہ کرنے پر منتج ہوا۔

             میر محمود خان اول کا دور گو کہ عدم استحکام کا تھا مگر بلوچستان میں عوامی سطح پر اب بھی لوگ دور نصیری کو یاد کرتے تھے کہ جس کا مطلب تھا کہ ان میں اجتماعی شعور کی کمی نہ تھی اور وہ دوبارہ استحکام اور خوشحالی کی جانب گامزن ہونا چاہتے تھے مگر درباری وزراء، وکلا، مشیر اور دیگر اعلیٰ ترین عہدے غیر ملکی افراد کے پاس تھے کہ جن کے دل میں بلوچستان کے لئے محبت اور دلچسپی کے کوئی جذبات نہیں تھے وہ صرف اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے خواہاں تھے حتیٰ کہ ان میں سے بعض میر محراب خان کے دور میں حکمرانی کی گدی کے لئے بھی سرگرم رہے۔  جو ملکی سردار اور قبائلی رہنما تھے یا تو انہیں نظر انداز کیا گیا یا پھر انہوں نے اپنے مفادات کو ترجیح دی اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ملکی نقصان کا سبب بنتے گئے وہ سرکاری اراضیات پر قابض ہوکر ریاست کے استحکام کو نقصان پہنچاتے اور غداران قوم و وطن کے ارادوں اور کوششوں کو استقامت بہم پہنچارہے تھے اور نہ صرف یہ کہ انہیں قلات پر بیرونی اقتدار قائم کرنے میں مددگار ثابت ہورہے تھے بلکہ اپنے لئے اور اپنے قبائل کے لئے دائمی غلامی کا سامان بھی پیدا کررہے تھے۔

            بلوچستان کے سیاسی حالات کا صحیح تجزیہ کرنے کا ذریعہ یہی برطانوی جاسوسوں، ایجنٹوں، سول اور فوجی افسران کی تحریریں ہیں کہ جن سے مورخین اور قارئین نہ صرف استفادہ کرتے ہیں بلکہ ان پر تجزیہ بھی کرتے ہیں یہ ضروری نہیں کہ انگریز جاسوسوں کی آمد سے قبل کے بلوچستان کے حالات کو صرف ان ہی تحریروں کی روشنی میں دیکھا جائے کہ جو انگریزوں کی اپنی تحریر کردہ ہیں بلکہ بعض دیگر ذرائع بھی ان حالات کا تجزیہ کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں البتہ انگریزی جاسوسوں کی تحریروں سے ان کی اپنی خواہشات اور حکمت عملیوں Policiesکا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے ۔

            بلوچستان کے پرامن اور آسودہ و خوشحال ماحول کو پراگندہ کرنے کا آغاز 1795ء سے ہوا مگر باقاعدہ برطانوی فوجی جاسوسوں کا ورود اس خطہ میں 1810ء میں شروع ہوا اور پہلا انگریزی جاسوس ہنری پوٹینگر اپنے ساتھی جاسوس کیپٹن کرسٹی کے ساتھ ساحلی علاقوں سے بلوچستان میں داخل ہوا اور بلوچستان اور بلوچ عوام کے لئے ایک لمبی غلامی کا سندیسہ بھی ساتھ لے کر آیا۔


حوالہ جات:

1۔       میر احمدیار خان، تاریخ خوانین بلوچ، اسلامیہ پریس، کوئٹہ،1974، 24
2۔       ایضاً،30
۔       لارنس لاک ہارٹ، نادر شاہ، مترجم، طاہر منصور فاروقی، تخلیقات، لاہور ، 2007،367
4۔       جی۔ پی۔ ٹیٹ، کنگڈم آف افغانستان ، انڈس پبلیکیشنز، کراچی، 1973،68
5۔       ایضاً،,75
6۔       گنڈا سنگھ، احمد شاہ درانی، گوشہ ادب، کوئٹہ،1990،214
7۔       میر گل خان نصیر، تاریخ بلوچستان، قلات پبلشرز، کوئٹہ،2000، 88-95
8۔       میر احمدیار خان،63-65
9۔       گنڈا سنگھ،210
10۔      عنایت اللہ بلوچ، دی پرابلم آف گریٹر بلوچستان، جی ایم بی ایچ، سٹٹ گرٹ، جرمنی ، 1987،21
11۔      ایضاً،119
12۔      پروفیسر، ایم انور رومان، کوئٹہ قلات کے براہوئی ، مترجم، ڈاکٹر انعام الحق کوثر، قریشی پبلیکیشنز، کوئٹہ، 1987، 104
13۔     میر گل خان نصیر،94
14۔     ایضاً،94-95
15۔     احمد حسین صدیقی، گوہربحیرہ عرب (کراچی)، محمد حسین اکیڈمی، فیڈرل بی ایریا کراچی، 1995،68
16۔     میر گل خان نصیر،94
17۔     عنایت اللہ بلوچ،119
18۔     جی۔ پی۔ ٹیٹ، 83
19۔     کارل مارکس، ہندوستان کا تاریخی خاکہ، تخلیقات، لاہور، 2002،94
20۔     ایضاً،144-45
21۔     میر احمدیار خان،55-56
22۔     ایڈورڈ۔ای آلیور، پٹھان اور بلوچ، مترجم، ایم انور رومان، نساء ٹریڈرز،کوئٹہ، 1984،41-42


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔