کہانیوں میں لپٹی تربیت – میرین زہری

249

کہانیوں میں لپٹی تربیت

تحریر: میرین زہری

دی بلوچستان پوسٹ

میری والدہ کے نام، جس کی محبت و شفقت سے تربیب پایا ہوں، جس نے مجهے پال کر اس دنیا کے اتار چڑھاؤ سے روشناس کرایا، والدین کی محبت میں تربیت ہوتی ہے اور وہ اپنے اولاد سے اس سے بهی زیادہ محبت کرتے ہیں. ہماری تربیت میں سب سے بڑا ہاتھ ہمارے والدین کا تها۔ اسکول، مدرسہ، کتاب سے پہلے ہم کو یہ بتایا گیا تها کے سچ اور جهوٹ کیا ہے، حق اور سچ کسے کہتے ہیں اور بچپن سے ہم سب کی پسند امی کی ہی پسند رہتی، انہوں نے مفلسی کے دنوں میں بهی ہمیں کبهی مایوس نہیں کیا اور جس حال میں انہوں نے رکها بہت بہتر رکها، والدین تو ہوتے ہی ہیں اپنے اولادوں کے لئے جو اپنا سب کچھ لٹاکر اولاد سے فقط بدلے میں پیار محبت کی امید رکھتے ہیں-

ہم عام سے سادہ لوگوں کی زندگی بهی سادی ہوتی ہے، جہاں ایک ہنستا بستا گهر، ہم بهائی بہن اور ہمارے والدین جنہوں نے ہم سب کو پڑها لکھا کر زندگی بتانے کا شعور بخشا. چهوٹے بڑے سے کیسے پیش آنے کا سلیقہ سکهایا یوں کہوں جن لوگوں کو ہمارے عمل کردار میں جتنی شفقت محبت بہتر دکهائی دی ہو یہ سب ہمارے والدین کی دی گئی تعلیمات ہیں اور مجهے اس پر خوشی ہے کہ ہم نے جو سیکها وہ کسی کتاب کی دین نہیں تهے بلکہ اپنے والدین کی تربیت سے سیکھی اور جو انہوں نے بتایا سکهایا آج اس پر گامزن ہوکر اطمینان محسوس کرتا ہوں –

میری والدہ اج بهی جب کوئٹہ کراچی سفر طے کرکے جس جستجو کی تلاش میں ہے، یہ بهی انہی کی اپنی تعلیمات تهیں، حق اور سچائی پر ڈٹے رہو چاہے وہاں تمهیں کوئی مجھ سے چهین ہی لے پر اپنے فکر سے پیچهے مت ہٹو۔

کیا اندهیروں سے لڑنا کسی نے چهوڑا ہے، کیا روشنی کی جسجتو کرنے والے محدود ہوگئے ہیں، کیا کمزوروں کے لئے مسیحا نہیں آتے؟ کیا حق اور سچائی پر جان دینے والے ختم ہوگئے؟ اگر ہاں تو تمهیں یہ کرنا ہے تم ہو جاؤ. تم نا اول ہو نا آخر تمهارے بعد میں لڑونگا میں تمهیں مایوس نہیں کرونگا کیا تم اپنی والدہ کو مایوس کروگے کیا تم میرے دودھ کا حق ادا نہیں کروگے؟

آج میرے دوست بهائی یار کو ایک سال بیت گیا وہ کسی نا معلوم زندان کے کالی دیواروں پر لکیر لگاتے گن رہا ہوگا، اسلئے نہیں کے وہ اتنے دن یہاں گزارے اسلئے کے اسے جن تعلیمات نے کمزور کے لئے لڑنا سکهایا وہ کب تک سختیوں سے لڑ رہا ہوگا ایک جگہ وہ آکر شاید امی کے صحت بارے سوچ کر تهوڑا پریشان ہوتا ہوگا، اسے معلوم ہے کہ امی کی ٹانگوں میں اکثر درد رہتا تها۔ وہ شاید یہ سوچ رہا ہوگا جس شدت کی سردی ہے امی پھر لوٹ کر گهر گئی ہوگی لیکن پھر وہ زندان کی کالی راتوں دریچے سے آتے ہلکی سے روشنی کو دیکھ کر مسکراتا ہوگا، یہ روشنی اسی کی جہد کی علامت ہے، آج یہ ہلکی سی ہی صحیح پر ایک یہ دریچہ کهل جائے گا ایک دن ان زندانوں کے دیوار ریزہ ریزہ ہونگے، وہ جب مجهے بچپن میں دیو جنات کی کہانی سناتی، آخر میں جیت حق سچ والوں کی ہوتی، اس نے ہی سکهایا سختیوں سے لڑنا. کیا وہ مجهے ان دیوں کے قید میں یوں تنہا چهوڑ سکتی ہے، تب وہ ایک اور لکیر کهینچتا ہے نہیں اماں تو لڑ رہی ہوگی اور یہ روشنی بڑھتی ہی جائیگی۔

آج بهی جب والدہ کو سخت سردیوں میں کبهی آنسو بہاتے، کبهی مسکراتے سنتا ہوں تو یقین ہو چلتا ہے کے یہ لڑائی تو انہوں نے لڑی ہے، وہ کبهی جہدو جہد سے باہر نہیں رہی، جو کہانیاں وہ سناتی تهی جہاں طاقت ور کمزور کو اٹها کر لے جاتے ہیں پھر اس کمزور کے لئے لڑتے لڑتے کوئی دیو ہیکل سے کمزور کو چهڑالیتا یا کوئی کمزور کسی بادشاہ کے سلطنت سے ٹکر لیتا اور گاؤں بچا لیتا انہی کہانیوں کے زریعے ہی تو اس نے ہمیں بتایا کمزور چاہے جتنا کمزور ہو آخر جیت حق اور سچ کی ہی ہے ضرورت بس جہدو جہد کی ہے. ضرورت بس ہمت و حوصلہ کی ہے. آج ہم دیکھ رہے ہیں میری بوڑھی والدہ نے پورے بلوچ قوم کو ایک حوصلہ دیا ہوا ہے-

اماں سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں کیا یہ دنیا ہمیں کیسے خوفزدہ کر سکتی ہے، جب ہمارے ساتھ آپ جسی بہادر ماں ہو، جو اس قدر شددت سے لڑنا جانتی ہے کے زندان میں اذیت سہنے والا مسکراتا ہو. نہیں تمهاری جہدو جہد ایک علامت کہلائے گی اور یہ یقین پختہ ہوگیا ہے کہ اندهیروں سے روشنی مانگی نہیں چهینی جاتی ہے فقط الفاظ بہانے سے کچھ نہیں ہوتا خود بڑھ کر اپنی اولاد اپنے ساتھی کے مقصد کو تهام کر اسے آگے لیجانا ہے، جدوجہد کرنا چاہے تربیت کے زریعے کسی کہانی میں لپیٹ کر اپنی اولاد کو سکهایا جائے یا خود بڑھ کر سخت سے سخت حالات سے لڑا جائے بس شرط جہدِ مسلسل ہے –


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔