شہید شفیع بلوچ – نوروز بلوچ

363

شہید شفیع بلوچ

تحریر: نوروز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید شفیع بلوچ ایک بہت ہی بہترین سرمچار تھا اور اپنے ساتھیوں پہ جان نچھاور کرنے والا بہترین ساتھی تھا، جس کی مثال شاید بہت ہی کم ملتا ہوگا۔ ہر وقت جدوجہد میں مصروف اور دشمن کے خلاف حملوں میں پیش پیش تھا اور مادر وطن کی آزادی کے لیئے دن رات کام کرتا تھا۔ دشمن کی نیندیں حرام ہوجاتی تھی، جب بھی شہید شفیع بلوچ کا نام سنتے تھے۔ ہر وقت انکی یہی کوشش تھی کہ کسی بھی طریقے سے شفیع بلوچ کو شہید کیا جائے یا زندہ گرفتار کیا جائے مگر انکی کوششیں ہر بار ناکام ہوجاتے تھے کیونکہ خدا نے شہید شفیع بلوچ کو ایک ایسا گوریلائی حکمت عملی سے نوازا تھا کہ دشمن کے کئی کوششوں کے باوجود بھی دشمن کے ہاتھ نہیں لگا۔ بلآخر ایک دن اسپلنجی کے پہاڑوں سے نیچے اتر کر مستونگ کی طرف تنظیم کام کے سلسلے میں جارہا تھا تو وہاں سے ہوکر جب واپس آ رہا تھا تو راستے میں پاکستانی فوج کو پتا چلا کہ شفیع بلوچ راستے میں ہے تو وہ جلدی سے وہاں پہنچ کر شفیع بلوچ کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لیکر جاتے ہیں۔ اس وقت شفیع کے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے جس سے وہ اپنے جان کی حفاظت کر سکے اور اس وقت سنگتوں کے پاس بھی بہت ہی کم تعداد میں اسلحہ ہوا کرتا تھا، اگر یوں کہیں کہ بلکل اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھا تو شاید غلط نہیں ہوگا۔

جب شہید شفیع بلوچ کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لیکر جاتے ہیں، کچھ دنوں تک ٹارچر کے بعد جب انکو کہا جاتا ہے کہ اپنے ساتھیوں کا پتا بتاو تو وہ صاف صاف انکار کرتا ہے اور بہت ہی اذیت دینے کے بعد جب اسے ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر اسپلنجی کے پہاڑوں پہ لے جاتے ہیں کہ اپنے ساتھیوں کے پاس لیکر جاؤ ہمیں تو شفیع بلوچ بہت ہی ہوشیاری سے انہیں اس ایریا میں لیکر جاتا ہے، اور کیمپ کے اوپر سے ہیلی کاپٹر کو پرواز کروا کر آگے لیکر جاتا ہے، تین سے چار مرتبہ انہیں اس ایریا میں پرواز کرواتا ہے تاکہ اسکے ساتھی انہیں دیکھ کر سمجھ سکیں اور ان سے پہلے جگہ خالی کرا کر محفوظ مقام منتقل ہوجائیں اور انکے ہاتھ نہ آجائیں۔ جب ہیلی کاپٹر کو لینڈ کرنے کا کہتا ہے اور وہ لینڈ ہو کر وہاں جاتے ہیں تو اسکے سارے ساتھیوں نے جگہ چھوڑ کر باحفاظت نکل کر جا چکے ہوتے ہیں ان سے پہلے، جب پاکستانی آرمی کے اہلکار پورے ایریا کو گھیرے میں لیکر کیمپ کے اندار جاتے ہیں تو وہاں سنگتوں کے کچھ چیزیں پڑے ہوتے ہیں اور انکے کرنو بھی پڑے ہوتے ہیں، مگر ان میں سے ایک بھی نہیں ہوتا ہے۔

پاکستانی آفیسرز سمجھ جاتے ہیں کہ اس نے ہیلی کاپٹر کواس لیئے انکے اوپر سے پرواز کروایا تاکہ اسکے ساتھی ہمیں دیکھ کر نکل جائیں اور جب شہید شفیع بلوچ سے وہ پوچھتے ہیں کہ اگر انکا جگہ یہاں ہے تو ہمیں کیوں آگے لیکر گئے؟ تو شفیع بلوچ کا جواب ہوتا ہے کہ “سب کے شہید ہونے سے بہتر ہے کہ میں اکیلا شہید ہوجاؤں اور ہمارے بلوچی روایات میں نہیں کہ ساتھیوں سے دھوکا کیا جائے، میں تو شہید ہوجاونگا میرے شہادت کا وقت آچکا ہے، کم سے کم میرے فکری ساتھی تو بچ جائیں، جو میرے بعد اس فکر کو آگے لیکر جائیں۔” یہ سن کر پاکستانی فوج کے آفیسرز اپنے سپاہیوں کو شفیع بلوچ کو باندھ کر ایک جگہ پہ گرانے کا حکم دیکر بولتے ہیں کہ ہر جگہ کی تلاشی لیا جائے جب وہ تلاشی شروع کرتے ہیں تو شہید شفیع بلوچ اپنے ہاتھ کھول کر ایک پاکستانی فوجی کا اسلحہ چھیننے کی کوشش کرتا ہے اور وہ انہیں وہی پہ شہید کرتے ہیں۔

پاکستانی فوج اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں کہ شفیع بلوچ کو شہید کرنے کے بعد اسکو ایک غار میں رکھ کر اسکے لاش کے چاروں طرف بارودی مواد (مائنز) بچھاتے ہیں تاکہ اس کی لاش لینے کوئی نہیں آجائے اور اگر آئیں بھی تو واپس زندہ نہیں جا پائیں اور اس زمانے میں آبادی بھی اتنی زیادہ نہیں تھی لوگ سردیوں میں گرم علاقوں کی طرف ہجرت کر کے جاتے تھے۔

پورے چھ مہینے تک شہید شفیع بلوچ کے لاش کو کسی نے نہیں دیکھا چھ مہینے کے بعد جب شہید کے لاش کو کسی راہگیر نے دیکھا تو اس نے سنگتوں کو انفارم کیا اور سنگتوں نے کسی طریقے سے وہاں پہ جاکر اسکا لاش نکال کر علاقے (اسپلنجی ) میں لایا تو علاقے والے اسکی لاش کو دیکھ کر حیران ہوگئے، ان میں خوب شہادت کا جذبہ جاگ گیا اور شہید کو سلام پیش کیا۔

بقول مرحوم ملا مزار الدین کے جب میں اسے غسل دے رہا تھا تو چھ مہینے بعد بھی نہ اسکی لاش خراب ہوا تھا اور نہ اسکا خون رکا تھا اس کا خون اس قدر بہہ رہا تھا کہ پانی ڈالتے وقت میرے کپڑے خون سے بے نمازی ہوگئے تھے۔ اور وطن کے سپاہی کو اسپلنجی کے قبرستان میں دفنایا گیا

اسی وقت مرحوم ملا مزارالدین نے کہا کہ بے شک شہید مرتے نہیں بلکہ زندہ ہوتے ہیں نہ اسکی لاش کو زمین کھاتا ہیں نہ کہ کوئی جانور اور مرحوم نے کہا کہ خدا شہادت دے تو شہید شفیع بلوچ جیسا دے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔