راشد بہادری اور ہمت کا نام – زیمل بلوچ

545

راشد بہادری اور ہمت کا نام

تحریر: زیمل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج اس شخص کے نام کچھ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں، جس نے ہر موڑ پر میرا ساتھ دیا، مجھے ہمت و حوصلہ بخشا، میری رہنمائی کی دوست خواہ اور بدخواہوں سے روشناس کرایا، نا میں کوئی لکھاری ہوں نا کوئی فلسفی میرے پاس ایک قلم اور کاپی کا ایک پنہ ہے، دل میں درد، احساس اور انتظار، طویل انتظار۔ میرے ہاتھ کانپ اٹھتے ہیں، جب میں لفظ دوری لکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ تمهیں ہمیشہ ہمارے پاس رہنا تھا، ہمیں حوصلہ اور ہمت بخشنا تھا، تمہارے بعد موسموں میں اپنا پن نا رہا لیکن میں یہ بیان ہی نہیں کر پارہا کہ راشد ہے کون، راشد میرے اور اپنے دوستوں کے لئے سب کچھ تھا، حوصلہ، ہمت، رہنماء، دوست، ہمدرد، سب تم ہی تھے اور آج تمهارے بنا کچھ بھی اپنا نہیں لگتا۔ راشد نام ہے بہادری ہمت کا، راشد مالک ہے حوصلوں کا۔

راشد کو آج ایک سال ہوئے ہیں کہ وہ تاریک زندانوں میں قید ہے، پچھلے سال اسی بدقسمت دن کو راشد متحدہ عرب سے اغواء کیے گئے تھے، جو ہمارے ساتھ شاید انکے اپنے گمان میں بھی نہیں تھا۔ راشد میرا حوصلہ ہے، انہوں نے ہی مجھے ہمت اور حوصلے کا مطلب سکھایا تھا، انہوں نے ہی سکھایا کہ خود کو سنبھالنا ہوگا، ہمیں ہر مشکل کا سامنا کرنا ہوگا، سخت سے سخت حالات کا بھی ہمیں مقابلہ کرنا ہوگا، ہمیں بالکل بھی کمزور نہیں پڑنا، ہمیں اندھیروں سے لڑنا ہوگا، تب ہی ہم ان اندھیروں سے نکل پائیں گے، میں کبھی کبھی بہت کمزور پڑ جاتی تھی چونکہ میں نے پہلے ہی بہت ایسے حالات دیکھے تھے تو میں راشد سے کہتی تھی یہ ظلم کب ختم ہوگا کب تک ہم یہ سب سہتے رہیں گے، جب بھی دیکھو یہی سننے کو ملتا ہے اتنے لوگ اٹھائے گئے، اتنے مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں، کبھی ہماری مائیں بہنیں اور چھوٹے بچے سڑکوں پر روتی ہوئی نظر آتی ہیں اور راشد یہی کہتے تھےاپنے حوصلے بلند رکھو، تمہیں مجھے، ہم سب کو اس ظلم و جبر سامنا کرنا ہوگا، اسکے خلاف جدو جہد کرنا ہوگا۔ اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا انکا جذبہ، ہمت اور حوصلہ ہی انکو متحدہ عرب امارات جیسے ملک میں محفوظ نہ رکھ سکا اور وہ خود اس ظلم کا شکار ہوگئے ۔

آج جب راشد کے والدہ کی ہمت و حوصلہ جدو جہد کو دیکھتی ہوں تو یقین ہوجاتا ہے یہ اس عظیم ماں کی تربیت ہے جو خود بھی اندھیروں سے لڑنا جانتی ہے، اماں جان آج جہد، حوصلہ اور ہمت کی مثال بن چکی ہے، جب میں اماں سے بات کرتی ہوں مجھ میں ہمت نہیں ہوتی، بات کرتے کرتے میں بہت کمزور پڑ جاتی ہوں کہ اماں کس درد سے گزر رہے ہوں گے کیونکہ وہ ماں ہیں انکا درد لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے لیکن اماں کی ہمت، حوصلہ ہمارے حوصلوں کو مزید بلند کرتی ہے، وہ ہمیشہ کہتی ہیں ہمیں ہمت کرنا ہوگا، ہمیں ان سختیوں سے لڑنا ہوگا، ہمیں ہی اندهیروں میں دن کی روشنی لانا ہوگا۔

اور مجھے، ہم سب کویہ یقین پختہ ہوگیا ہے کہ اماں کی یہ حوصلہ ہمت اور جہد ضرور راشد کو زندانوں سے ضرور واپس لائیں گے۔ راشد جس بھی زندان میں ہوگا اسکے حوصلے بہت مظبوط ہوں گے، وہ ہر ظلم و ستم کا مقابلہ بہادری سے کر رہا ہوگا کیونکہ جو دوسروں کے لئے ہمت اور حوصلے کا باعث بنتا ہے، خود کیسے کمزور پڑ سکتا ہے۔

میرے لئے یہ ایک بہت تکلیف دہ لمحہ ہے، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا اور نہ ہی گمان میں تھا ایک دن یوں میں راشد کے نام کچھ لکھونگی میں اسکی دوری خود کی تنہائی اس سے بیان کرونگی اور پھر یوں طویل انتظاروں میں رہونگی، نہیں ہمیں راشد کو دور زندانوں سے واپس لانا ہے، اس نے کبھی کسی بے بس کو تنہا نہیں چھوڑا، ہمیشہ سب کی آواز بنا آج ہم سب مل کر اسکا آواز بننا ہے اور ہمیں اندھیروں کا مقابلہ کرکے روشنی لانا ہے، ہم نہیں اٹھے تو اٹھائے جائینگے اٹھو اس سے قبل کے اٹھائے جاو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔