دوران قید طالبان نے پاکستان و افغانستان میں متعدد جگہوں پہ ہمیں منتقل کیا – آسٹریلوی پروفیسر

300

تعلیم کے شعبے سے وابستہ آسٹریلوی شہری ٹموتھی ویکس نے ایک طویل عرصے تک افغانستان میں طالبان کی قید بھگتنے کے بعد کہا ہے کہ انھیں طالبان سے کوئی نفرت نہیں بلکہ رہائی پانے پر وہ کچھ سے گلے مل کر آئے ہیں۔

طالبان اور امریکی حکام کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں ٹموتھی ویکس اور ایک امریکی شہری کیون کنگ کو رہائی نصیب ہوئی ہے۔

رہائی پانے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں انھوں نے اس اذیت ناک تجربے کی روداد سناتے ہوئے کہا کہ اس تمام عرصے میں انھوں نے کبھی امید کا دامن ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں امریکی کے خصوصی دستوں نے کم از کم چھ مرتبہ ان کو طالبان سے کی قید سے بازیاب کرانے کے لیے آپریشن کیے لیکن انھیں کامیابی نہیں ہو سکی۔

طالبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹموتھی نے کہا کہ دے آر لویلی پیپل یعنی وہ (طالبان) پیارے لوگ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ انھیں پوری امید تھی کہ ایک نہ ایک دن ان کو رہائی ملے گی اور وہ وہاں سے نکل جائیں گے۔

امریکی حکام اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کی غرض سے اس ماہ قیدیوں کے تبادلے میں افغان حکام کو بھی طالبان کی تین سرکردہ شخصیات رہا کرنا پڑا۔

رہائی پانے والے دونوں غیر ملکیوں کا تعلق تعلیم کے شعبے سے ہے اور تین سال قبل انھیں کابل میں امریکی یونیورسٹی کے باہر سے اغوا کر لیا گیا تھا۔

پچاس سالہ ٹموتھی ویکس آسٹریلیا میں نیو ساوتھ ویلز کے ایک قصبے واگا واگا سے تعلق رکھتے ہیں اور آسٹریلیا پہنچنے کے بعد انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کے نمائندوں سے پہلی مرتبہ بات کی۔

انھوں کہا کہ ان کے خیال میں ان کو رہائی دلوانے کے لیے کئی کارروائیاں کی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں افغانستان اور پاکستان میں کئی جگہوں پر منتقل کیا جاتا رہا اور اکثر تنگ اور تاریک کوٹھریوں میں بند رکھا جاتا تھا جن میں کھڑکیاں نہیں ہوتی تھیں۔

ٹموتھی ویکس نے کہا کہ ان کے خیال میں چھ مرتبہ امریکی سپیشل فورسز انھیں چھڑانے کے لیے آئے لیکن صرف چند گھنٹوں کے وقفے سے وہ ان تک نہیں پہنچ سکے۔

انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں ایک کارروائی اس سال اپریل میں کی گئی جب ان کے حفاظت پر معمور طالبان نے انھیں بتایا کہ ان پر دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں نے حملہ کر دیا ہے۔

انھوں نے کہا انھیں اب معلوم ہوا ہے کہ وہ حملہ امریکی فورسز نے کیا تھا۔

اس کارروائی کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوجی اس جگہ کے دروازے تک پہنچ گئے تھے جہاں انھیں رکھا گیا تھا۔جس لمحے ہم نے ایک سرنگ میں قدم رکھا اور ابھی اس سرنگ میں میں ایک یا دو میٹر ہی زیر زمین اتریں ہو گے کہ ہمیں دروازے کے باہر ایک زوردار دھماکے کی آواز سنائی دی۔

انھوں نے کہا کہ اس کے بعد کئی طالبان باہر چلے گئے اور زبردست فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ طالبان نے مجھے سرنگ میں دھکیل دیا اور میں نیچے گر پڑا اور کئی لڑکنیاں کھانے کے بعد بے ہوش ہو گیا۔

انھوں نے کہا کہ انھیں اس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ ان کی حفاظت پر تعینات طالبان بھی فوجی تھے اور وہ کسی کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کے پابند تھے اور ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

انھوں نے کہا کہ مجھے ان سے نفرت نہیں ہے۔ان میں سے چند کے لیے میرے دل میں بہت احترام اور پیار ہے۔ کچھ تو اتنے ہمدرد اور بہت پیارے لوگ ہیں۔ اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ وہ اس صورت حال پر کیسے پہنچے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی اذیت ناک کا انجام بھی اچانک اور ڈرامائی انداز میں ہوا جس طرح ان کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ دو امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر آسمان سے اترے اور انھیں رہائی مل گئی۔

ہیلی کاپٹروں سے اڑنے والی گرد و غبار سے چھ امریکی سپیشل فورسز کے اہلکار برآمد ہوئے اور انھوں نے ہمیں اپنے ساتھ چلنے کا کہا۔ ان میں سے ایک فوجی میری طرف بڑھا اور اس نے ایک ہاتھ میرے کندھے کے گرد ڈال کر کہا کہ آپ ٹھیک ہیں؟ جس کے بعد وہ مجھے ہیلی کاپٹر کی طرف لے گیا۔

انھوں نے کہا قید کے دوران گزارے ہوئے وقت نے ان کی زندگی اور سوچ پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بعض اوقات انھیں لگتا تھا کہ موت بہت قریب ہے اور وہ اپنے پیاروں سے دوبارہ ملنے کے لیے بچیں گے نہیں۔ لیکن خدا کی مرضی کچھ اور تھی، آج میں یہاں ہوں زندہ اور محفوظ اور میں آزاد ہوں۔